نومبر کے مہینے میں دہشتگردی کے واقعات میں 70 فیصد اضافہ ہوا

نومبر کے مہینے میں دہشتگردی کے واقعات میں 70 فیصد اضافہ ہوا
شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے بعد امن قائم ہونے کے بعد بھی نومبر کے مہینے میں چھ حملے ہوئے۔

پاکستان کے تین صوبوں میں گزشتہ مہینے کی نسبت دہشتگردی کے واقعات میں ستر فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جن کی وجہ سے 27 لوگوں کی ہلاکت ہوئی جبکہ 38 زخمی ہوئے۔ گزشتہ مہینے ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس تھی جبکہ اس مہینے ستر فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

 یہ اعداد و شمار دہشتگردی اور انتہاء پسندی پر کام کرنے والے تحقیقاتی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز نے نومبر کے مہینے کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے پیش کیے۔

تحقیقاتی ادارے کے مطابق نومبر میں دہشتگردی کے واقعات میں اپنی جان سے ہاتھ دھونے والے 27 میں سے 18 افراد کا تعلق سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تھا جن میں 7 ایف سی اہلکار تھے جبکہ  چھ کا تعلق پولیس سے تھا اور پانچ کا تعلق پاکستان آرمی سے تھا۔ اس کے علاوہ دو افراد دہشتگرد تنظیم سے تعلق رکھتے تھے۔

مزید اعداد و شمار کے مطابق 38 زخمی ہونے والوں میں 21 عام شہری شامل تھے۔ جبکہ 17 کا تعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی فورسز سے تھا۔ ادارے نے سیکیورٹی فورسز کی زیادہ ہلاکتوں کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے وضاحت کی کہ سترہ میں سے بارہ حملے ٹارگٹڈ تھے جن کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔

تحقیقاتی ادارے نے خیبر پختون خوا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کے حملے سب سے زیادہ خیبرپختونخوا میں ہوئے جو پورے پاکستان کے حملوں کے ستر فیصد بنتے ہیں۔

ادارے نے کہا ہے کہ پورے ملک میں سترہ میں سے بارہ حملے اس کے پی کے  میں ہوئے جن میں 15 لوگوں کی ہلاکت ہوئی جبکہ 16 افراد زخمی ہوئے جبکہ گزشتہ مہینے یہ تعداد آٹھ تھی۔ ادارے نے شمالی وزیرستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے  کہ پورے صوبے میں بارہ میں چھ حملے شمالی وزیرستان میں ہوئے۔

پاکستان آرمی نے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے بعد امن قائم ہونے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ شمالی وزیرستان میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ادارے نے مخدوش صوبہ بلوچستان میں امن و امان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے اعداد شمار میں کہا ہے کہ صوبے میں دہشتگردی کے تین واقعات ہوئے اور کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا کیونکہ گزشتہ مہینے بھی تین واقعات ہوئے تھے۔ اعداد و شمار کے مطابق تین حملوں میں سات لوگ ہلاک جبکہ اٹھ زخمی ہوئے ہلاک ہونے والوں میں پانچ کا تعلق ایف سی سے تھا۔ ادارے کا  ماننا ہے کہ تینوں حملوں کی زمہ داریاں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں نے قبول کی۔

آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا زکر کرتے ہوئے تحقیقاتی ادارے کا کہنا ہے کہ صوبے میں دہشتگردی کے دو واقعات ہوئے جن میں پانچ لوگ ہلاک اور چودہ زخمی ہوئے۔ حملوں کی زمہ داریوں کو واضح کرتے ہوئے ادارے نے کہا کہ ایک حملہ بلوچ علیحدگی پسند تنظیم (بلوچستان لیبریشن ارمی) نے قبول کی ہے جبکہ دوسرا حملہ جماعت الحرار سے علیحدگی اختیار کرنے والے تنظیم حزب الحرار نے قبول کی ہے۔

ادارے کے مطابق صوبہ سندھ، اسلام آباد اور گلگت بلتستان میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔ ادارے نے سرحد پار انڈیا سے لائن اف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں کمی کی نشاندہی کی ہے۔

ادارے کا دہشتگردی کے خلاف آپریشن کا ذکر کرتے ہوئے کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے صرف ایک آپریشن خیبر پختون خوا میں ضم شدہ باجوڑ ضلع میں ہوا جن میں ایک دہشتگرد مارا گیا۔ ادارے کا دہشتگردوں کے ساتھ مقابلوں کی تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے مشتبہ دہشتگردوں کے ساتھ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں سات مقابلے کئے جن میں مشتبہ چھ دہشتگردوں کی ہلاکتیں ہوئی جبکہ سیکیورٹی فورسز کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔