اگر منظور پشتین نے بھی اسلحہ اٹھا لیا؟

اگر منظور پشتین نے بھی اسلحہ اٹھا لیا؟
زرداری کے دور میں جب سیاسی شعوری نے تھوڑی آنکھ کھولی تو کچھ ہی حقائق اور ان پر قائم ڈھیروں مفروضوں نے یکدم حملہ کر دیا۔ پہلی بات تو دہشتگردی کا وہ تسلسل جو مشرف ملک کو تحفے میں دے کر گیا تھا، اس کا شدید ہونا اور پھر بدعنوانی، مہنگائی، اور ایسے ڈھیروں مسائل اور ان پر عوامی ہائے ہائے۔ اس وقت روز ملک میں کئی جگہوں پر بم پھٹتے تھے۔ پشاور، مردان، اسلام آباد، کراچی، لاہور، ملتان جیسے بڑے شہر دہشتگردی سے شدید متاثر تھے۔ اس وقت کہا یہ جاتا تھا کہ گھروں سے جب نکلیں تو آخری سلام دعا کر کے نکلا جائے، کیونکہ کچھ معلوم نہیں واپسی ہو یا نہ ہو۔ اور یہ بھی کہ امن صرف ایک بم حملے سے دوسرے بم حملے کے بیچ کے دورانیے کا نام ہوتا تھا۔

آج اس دہشتگردی سا خوف تو نہیں پایا جاتا، ہاں اس دوران شدت پسندی نے اپنے کئی رنگ بدلے ہیں۔ ہم نے سلمان تاثیر کو گستاخ کہہ کر قتل کر دینے کے بعد شدت پسندی کا ایک نیا ابھار دیکھا۔ مشعال خان کے مار دیے جانے کو اس کا ہی تسلسل دیکھا اور مزید شدید پایا۔ اس بیچ وہ وقت بھی آیا کہ ملک سے پانچ شہریوں کو اٹھا لیا گیا اور ان میں نمایاں نام پروفیسر سلمان حیدر کا بھی تھا۔ ان پانچوں کو گستاخ ثابت کرنے کی بھرپور ریاستی کوشش کی گئی اور دلچسپ بات یہ کہ تقریباً عوام نے یہ بیانیہ جذب کرتے ہوئے مان بھی لیا کہ وہ پانچوں گستاخ تھے اور ریاست کو ان پانچوں کو لٹکا دینا چاہیے۔ خیر، یہاں سے ریاستی جبر کی وہ شکل عوام نے پھر سے دیکھنا شروع کر دی کہ جو مشرف کی آمریت کے دور میں ہر جانب خاموشی کے سبب غائب نظر آتی تھی۔
اس سب نے ایک تحریک کی شکل جیسے اختیار کی وہ بہت دلچسپ اور ڈرامائی ہے۔ نواز شریف نے ایک جانب ریاستی اداروں کی اصلیت لوگوں کو بتانا شروع کر دی۔ اس کو بھلے ہی عوام سے نہیں اگلے الیکشنز سے غرض تھا، اور لڑائی تھی بھی دو طاقتوں کی ہی، عوام خود کو بھلے اس میں شریک سمجھیں لیکن وہ اس لڑائی میں تھے ہی غیر متعلقہ، ان کا اس لڑائی سے اتنا کوئی خاص تعلق تھا بھی نہیں۔ ہاں مگر اس سے عوام کا بھلا ہوا ضرور ہے، ان کو سوچنے کے اصل زاویوں پر راغب کرنا اس کا ایک اچھا پہلو نظر آتا ہے۔ خیر ریاست کو مزید جس کا انتظار تھا وہ اور کوئی نہیں منظور پشتین نامی ایک غیرتمند پشتون ہے، جس نے نقیب اللہ محسود کے راؤ انوار کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کے بعد پشتون تحفظ تحریک کا آغازکیا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ہماری ریاست نے شروع سے ہی اس تحریک کو اپنے اوپر اس قدر سوار رکھا کہ معلوم نہیں منظور پشتین کچھ ہی دنوں میں ایک عام آدمی سے خاص آدمی بن گیا۔ ایک منظور کو گرانے کے لئے ریاست نے سر توڑ کوششیں کر لیں مگر اس کی پذیرائی دن بدن بڑھتی ہی رہی۔ اس میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ اسی دوران ریاست کا ایک سنگین بلنڈر، ایس پی داؤڑ کے اسلام آباد جیسے شہر سے غائب ہونے کے بعد سامنے آیا۔ ایس پی کو افغانستان میں قتل کر کے پاکستان کے حوالے کیے جانے کے بعد سے ملک میں عجیب سا خوف پھیل گیا کہ جہاں سکیورٹی اپنی ہی حفاظت آپ نہیں کر سکتی، عوام کس سے تحفظ مانگے؟



اس بات پر بحث نے مزید زور پکڑا کہ ہم جس سے اپنا تحفظ چاہ رہے ہیں، وہ ہمیں تحفظ دینے کے لئے بنائے بھی گئے ہیں یا ماجرا کچھ اور ہے۔ میرے خیال میں عوام میں آگاہی کا یہ منظر بہ منظر سلسلہ انتہائی دلچسپی کا حامل رہا۔

اس پورے کھیل میں پنجاب کی انٹیلیجینشیا ریاست کا بھرپور ساتھ دیتی رہی۔ اس بیانیے کو جو ریاست عوام کو ٹھونسنا چاہتی تھی اس کے ٹھونسنے میں ان دانشوروں کی لاٹ نے ریاست کی بہت مدد کی، مگر بےکار۔

یہ ویسے ہی مددگار ہیں جیسے کہ بنگلہ دیش کی علیحدگی کے وقت ابھرے تھے۔ پنجاب میں صرف ایک ہی آواز گونجی کہ محبت گولیوں سے بو رہے ہو، وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو۔ حبیب جالب، جو اس وقت جیل سے باہر رہنا بزدلی اور بے غیرتی سمجھتے تھے۔ پنجاب کا ایک بڑا نام، نظامی برادران اور ان کا نوائے وقت ہاؤس ان دنوں کا سرکاری اخبار ہی تھا۔ وارث میر صاحب کے جو کہ اس وقت نوائے وقت میں لکھا کرتے تھے ایسے کئی کالم پڑھے جنہوں نے بنگالیوں کے خلاف زہر اگلا اور اس سب کا ذمہ دار اس وقت کے منظور پشتین، مجیب الرحمٰن کے سر ڈال دیا۔

میر صاحب اپنے ایک کالم میں فرماتے ہیں کہ مجیب الرحمان ہی تھا جس نے نفرت کا بیج بویا، وہی ہے مسلمانوں میں باہم تفریق ڈالنے والا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس قدر فہم رکھنے والے لوگ کیسی کیسی باتیں لوگوں کو بتاتے رہے۔



حیرت تب ختم ہوتی ہے جب آج کا ریاستی دانشور بھی وہی حرکتیں کرتا پایا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اب بھی کہہ رہے ہیں کہ پہچان کی سیاست کرنے والے ہی نفرت پھیلانے والے ہیں، یہ تو پاکستان کو اپنا ملک تصور ہی نہیں کرتے۔ ہم سوات کے امن اور وزیرستان میں امن کے استحکام کی بات تو کرتے ہیں مگر شدت پسندی جس کا تعلق ہمارے اداروں سے ہے جس کا تعلق ہمیشہ سے ہونے والی گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل کے اقدام سے ہے، ہماری زبانیں اس عین وقت میں گنگ کیوں ہو جاتی ہیں؟ ابھی بھی شائد اس بات کا انتظار ہے کہ ابھی آگ ہمارے گھر تک نہیں پہنچی۔ خیر، اچھی حکمت عملی ہے۔

حالیہ دور میں ایسے کئی واقعات نے سر اٹھایا جن میں اس بحث نے کچھ زور پکڑا۔ زور بھی شائد تبھی محسوس ہوا کہ واقعہ پنجاب کے شہر ساہیوال میں پیش آیا۔ ایک ذیشان سمیت تین ایک ہی خاندان کے بے گناہ افراد کو مار دیا گیا اور ریاستی مشینری اس سانحے سے اپنا آنچل بچاتی پھر رہی ہے۔ ایسا اس لئے بھی ہے کہ اس واقعے کا تعلق ملک کی ایک ایسی ایجنسی سے ہے جس کے بارے میں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتے۔

حال ہی میں بلوچستان کے علاقے لورالائی میں سکیورٹی اداروں کی تحویل میں پشتوں تحریک کے اہم رہنما، نوجوان معلم ارمان لونی کو مار دیا گیا۔ کیا آپ نے ایسی کوئی خبر میڈیا پر چلتے دیکھی؟ اگر دیکھی ہو تو ازراہ کرم اس کالم کے جواب میں میرے درستگی ضرور کیجئے گا۔ کیا اب بھی ہمیں ان سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ یہ لوگ پر امن رہیں اور ہر ریاستی جبر کو سہتے ہوئے مورد الزام بھی ٹھہریں کہ منظور پشتین کو تو موقع چاہیے اور وہ خون پر سیاست کرنا چاہتا ہے۔

ہمارے کچھ پنجابی بھائیوں کو تو جیسے موقع چاہیے تھا جملے کسنے کا اور مظلوموں سے اپنا بغض ظاہر کرنے کا۔ میرے ایک دوست فرماتے ہیں کہ ریاست خود ہی یوگوسلاویہ بننے پر تل جائے تو منظور پشتینوں کی عید ہو جاتی ہے۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ پی ٹی ایم اینڈ کمپنی کو نوچنے کے واسطے بلاوجہ ایک اور لاش فراہم کر دی گئی۔ یہی صاحب بنگلہ دیش کے معاملے پر پاکستانی ریاست سے بنگالیوں سے ریاستی معافی نامے کی اپیل بھی رکھتے ہیں، تو یہاں یہ معاملہ الٹ کیسے؟ کیا یہ بغض کبھی ختم بھی ہوگا؟ یا ہم اس کو اس نظر سے دیکھ لیں کہ یہ لوگ ملک میں کسی بھی قوم کے وجود کو اس لئے بھی نہیں ماننا چاہتے کہ اس سے ان کے اپنے مفادات کمپرومائز ہوتے ہیں؟ یہ ملک اور قوم کو ایک اکائی کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تو جناب یونائٹڈ پاکستان کی ممکنہ یہی صورت ہو سکتی ہے۔ تشدد، مارا ماری، استحکام اور پائیدار امن کے نام پر وسائل کا استحصال کی کوششوں کی ممکنہ صورت۔



جس ریاست کے منہ سے ارمان لونی کا تازہ خون بہہ رہا ہے وہ ہمیں بتائے گی کہ پشتون تحفظ موومنٹ والے نفرت پھیلا رہے ہیں؟ کیا ارمان ملک دشمن تھا؟ کیا وہ پاکستان کا غدار تھا؟ ایسا کیا تھا کہ جو اس کو ملک کی کسی بھی عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا تھا؟

جس نفرت کی یہ بات کرتے ہیں اس کے پھیلاؤ کے مرتکب تو یہ آپ ہیں۔ پچھلے دنوں میں ایک سیمینار میں شریک تھا جس میں ایک ڈاکومنٹری فلم چلائی گئی۔ وہ فلم ایک نجی جامعہ کے بچے نے بنائی تھی جو کہ ریاستی اثرات سے بھرپور بچوں کے ذہنوں میں ایک خاص بیانیہ بھر رہے ہیں۔ ایسا صرف ایک یونیورسٹی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ملک کی تمام یونیورسٹیاں اس وقت ایک خاص تدریسی سینسرشپ کا شکار ہیں جہاں آپ کو صرف ایک ہی سمت چلنے کی اجازت ہوتی ہے۔ خیر ڈاکومنٹری میں وزیرستان سے دہشتگردی کے خاتمے کے بعد منظور پشتین کو بطور خاص ایک نئے چیلنج کے طور پر دکھایا گیا۔ میں ہی وہ شخص تھا جو پشتون ٹوپی پہن کر ایونٹ میں شریک تھا۔ بعد اس ایونٹ کے اس بات پر تو سوال رکھا گیا کہ ایونٹ شروع تلاوت سے کیوں نہ کیا گیا مگر کسی کو پروا نہ تھی کہ جس کو وہ اپنا صحافتی شاہکار سمجھ رہے تھے اس سے کسی کی دل آزاری بھی ہوئی ہوگی۔ یہ وہ یکطرفہ چلنے والے مستقبل کے لئے تیار کیے جانے والے بارودی میزائل ہیں جو ہمیں بہت جلد چلتے ہوئے نظر آئیں گے۔

یہی وہ سوچ ہے جو بعد میں سر پکڑ کر بیٹھ جاتی ہے مگر جس سنگین جرم کا مرتکب ہوئے ہوتے ہیں اس پر ذرہ برابر بھی نادم نہیں ہوتے۔ مجھے یہ معاملہ مزید خراب ہوتا نظر آ رہا ہے جس سے ریاست پھر نکل نہ پائے گی۔ ایک بار یہ جنگلی بھینسا بپھر گیا، پھر اس کو قابو کرنے والی ریاست تو کیا اس سے بھی اوپر کی کوئی شے ہو، اس کے بھی بس کی بات نہیں ہوگی۔ منظور پشتین کو اصلحہ اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے۔ یہ پیغام ریاست اور ان کے ہر کانٹے اور چمچ کے لئے ہے۔ وہ جو پانچ فروری کو یوم کشمیر منا رہے تھے۔

سلمان درانی لاہور میں مقیم صحافی ہیں۔ بیشتر قومی اخبارات، اور آن لائن آؤٹ لیٹس پر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل @durraniviews ہے۔