ملا فضل اللہ اور منظور پشتین: فرق کیا ہے؟

ملا فضل اللہ اور منظور پشتین: فرق کیا ہے؟
از عرفان احمد

حال ہی میں ایسے بیانات اور سوشل میڈیا پر اٹھائے گئے سوالات نظر سے گزرے جن میں منظور پشتین کی پشتون تحفظ تحریک کا تقابل تحریک طالبان پاکستان سے کیا گیا تھا۔ کچھ لوگوں نے یہاں تک کہا کہ پشتون تحفظ تحریک طالبان کی حامی اور ان کی غیر موجودگی میں انہی کی طرح ریاست پاکستان پر انگلیاں اٹھا رہی ہے۔

ممکن ہے کہ اس تحریک پر کچھ اعتراضات جائز ہوں۔ ایسے الفاظ بھی اس تحریک کے حامیوں کی جانب سے سننے میں آئے ہیں جو کسی بھی محب وطن پاکستانی کے لئے تشویش کا باعث ہوں گے مگر طالبان کی حمایت یا ان کے جیسا قرار دینا شاید زیادتی ہوگی۔ ذیل میں ایک بنیادی سا تجزیہ چند اھم معاملات پر طالبان اور پشتون تحفظ تحریک کا مؤقف تقابلی جائزے کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سے ان دونوں کی سوچ کے واضح فرق کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

قانون کے حوالے سے سوچ میں فرق




پاکستانی فوج نے دس دہشتگرد ہلاک کر دیئے، تصویر: press tv

طالبان:  پاکستان کا قانون کفر کا قانون ہے۔


پی ٹی ایم: پاکستان کا قانون بالکل ٹھیک ہے، بس صحیح عملدرآمد ہونا چاہئے۔


فوج سے پُرامن اختلاف، دشمنی نہیں


طالبان: پاکستان کے فوجی کافر ہیں ان کے خلاف جہاد ہونا چاہئے۔


پی ٹی ایم: پاکستان کے کچھ جرنیلوں کی پالیسیاں غلط ہیں، جرائم پر سزا دی جانی چاہیے۔


آئین پر مکمل اعتماد کا اظہار


طالبان: ہم موجودہ قانون کو ختم کر کے  شریعتِ محمدی نافذ کرنا چاہتے ہیں۔


پی ٹی ایم: ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی پاسداری ہو اور تمام ادارے آئین کے دائرے میں رہ کر کام کریں۔


اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دو مختلف راستے


طالبان: اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے خودکش حملے بھی جائز ہیں، لوگوں ذبح کرنا اور لاشوں کو لٹکانا بھی ٹھیک ہے۔


پی ٹی ایم: اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے واحد راستہ "عدم تشدد" ہے۔


لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں دخل



طالبان: ہر بندہ داڑھی رکھے گا اور شلوار ٹخنوں سےاوپر ہوگی۔


پی ٹی ایم: لوگوں کی تذلیل بند کی جائے۔


عدالتوں پر اعتماد کا اظہار



طالبان: ہم اپنی عدالت لگائیں گے اور فیصلے ہم کریں گے۔


پی ٹی ایم: لاپتہ افراد کو پاکستان کی عدالتوں میں پیش کیا جائے۔


انسانی جانوں کا احترام


طالبان: ہم فیصلہ کریں گے کس کو قتل کرنا ہے کس کو نہیں۔


 پی ٹی ایم: ماورائے عدالت قتلِ عام بند کیا جائے، اور ماورائے عدالت قتلِ عام کے لئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔