جامعہ بنوں کے وائس چانسلر پروفیسر عابد علی شاہ کو نامناسب رقص کی ویڈیو پر استعفیٰ اور برطرفی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا

جامعہ بنوں کے وائس چانسلر پروفیسر عابد علی شاہ کو نامناسب رقص کی ویڈیو پر استعفیٰ اور برطرفی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا
حکومتی تحقیقاتی کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ گورنر شاہ فرمان، بنوں یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر پروفیسر عابد علی شاہ کو نامناسب رقص کی ویڈیو پر استعفیٰ اور برطرفی میں سے ایک کا انتخاب کرنے کا کہیں۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے ایک روز بعد 19 ستمبر 2019 کو وائس چانسلر کو جبری چھٹیوں پر بھیج دیا گیا تھا۔ مذکورہ ویڈیو میں پروفیسر عابد علی شاہ کو خاتون کے ساتھ ایک کمرے میں رقص کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر آنے والے ردعمل کے بعد یونیورسٹی کے چانسلر اور صوبے کے گورنر شاہ فرمان نے مذکورہ معاملے کو دیکھنے کے لیے ایک 3 رکنی کمیٹی قائم کی تھی۔ اس کمیٹی میں پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد آصف خان، گورنر کی جانچ پڑتال کی ٹیم کے سربراہ امتیاز الطاف اور اوقاف اور حج کے سیکریٹری فرخ سائر شامل تھے۔

ذرائع کے مطابق پروفیسر عابد علی شاہ کی جبری رخصت 3 ماہ میں ختم ہوگئی لیکن چونکہ انکوائری نامکمل تھی تو گورنر نے اسے مارچ 2020 تک 3 ماہ کے لیے بڑھا دیا تھا۔ وائس چانسلر کو 'کے پی' یونیورسٹی ایکٹ 2012 کے سیکشن 12 (8) کے تحت جبری رخصت پر بھیجا گیا ہے جس کے مطابق چانسلر 90 دن کے لیے وائس چانسلر کو جبری رخصت پر بھیج سکتا ہے جس میں حالات کے مطابق ایک بار توسیع کی جاسکتی ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ وائس چانسلر نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ جس ویڈیو میں وہ نظر آرہے وہ اصلی تھی لیکن یہ رقص وائس چانسلر بننے سے قبل کیا گیا تھا اور یہ کیمپس سے باہر کیا تھا۔ پروفیسر عابد علی نے الزام بھی لگایا کہ ریٹائرڈ سرکاری عہدیدار یونیورسٹی میں ملازمت کے لیے انہیں اس ویڈیو کا استعمال کر کے بلیک میل کیا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی تحقیقات میں یہ قرار دیا کہ یہ ویڈیو مغربی معاشرے میں قابل قبول ہوسکتی ہے لیکن پاکستان میں نہیں۔ اس میں مزید کہا گیا کہ واقعے کی ویڈیو نے بطور استاد وائس چانسلر کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا۔

واضح رہے کہ پروفیسر عابد کی مدت ملازمت آئندہ جولائی میں مکمل ہونی ہے۔ اس تمام معاملے پر جب پروفیسر عابد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی رقص کی ویڈیو جعلی ہے اور انہوں نے فرانزک آڈٹ کے لیے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی سے بھی رابطہ کیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے تحقیقاتی کمیٹی کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ 22ویں گریڈ کے افسر ہیں لہٰذا ایک 21ویں گریڈ کا افسر ان کے خلاف انکوائری کے لیے مجاز نہیں۔

علاوہ ازیں پروفیسر عابد علی نے وائس چانسلر کو جبری رخصت پر بھیجنے کے نوٹیفکیشن کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ تاہم اس درخواست کے زیر التوا ہونے کے درمیان ہی یہ 90 دن کی مدت اور ان کی جبری رخصت کو مزید بڑھا دیا تھا، جس پر انہوں نے اس کے خلاف ایک اور درخواست دائر کی تھی۔

ذرائع کے مطابق چانسلر وائس چانسلر کو ہٹا سکتے ہیں کیونکہ کے پی یونیورسٹی ایکٹ 2012 کی دفعہ 12 (7) کے تحت وائس چانسلر، چانسلر کی خوشنودی کے دوران عہدے پر فائز رہیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ بشرط کہ وائس چانسلر کو ان کے عہدے سے ہٹانے سے قبل چانسلر، وائس چانسلر کو ذاتی حیثیت میں سننے کا موقع فراہم کرسکتا ہے۔