امریکی ڈالرز یا ایران کی حمایت

امریکی ڈالرز یا ایران کی حمایت
پاکستان نے عراق میں امریکی حملے میں ایرانی فوج کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کے جاں بحق ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ دوسری جانب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لیا جائے گا۔

حقیقتِ حال تو یہ ہے کہ اس وقت ہمیں ایران اور امریکہ کے تیزی سے بگڑتے حالات پر تشویش کا اظہار کرنے کے بجائے یہ سوچنے کی زیادہ ضرورت ہے کہ ان دو ہاتھیوں کی شروع ہونے والی جنگ میں ہم کہاں کھڑے ہوں گے کیونکہ عنقریب ہمیں پھر امریکی وائٹ ہاوس سے ایک فون کال آنے والی ہے جس میں یہ پوچھا جائے کہ’’ ایران کے ساتھ ہو یا امریکہ کے ساتھ‘‘۔ گو کہ امریکی وزیرِ خارجہ پومپیو نے اپنے ہم منصب پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے بجائے براہِ راست گزشتہ روز جنرل باجوہ کو فون کر کے ’’خطے کی صورتِ حال سے آگاہ کیا ہے‘‘لیکن یہ بھی بہتر ہوا کہ کم از کم شاہ صاحب کو اپنی "اہمیت" اور "اوقات" کا درست اندازہ تو ہو گیا ہو گا۔

بہرحال یہ وہ اصل سوال ہے جس کا جواب ہماری وزارتِ خارجہ کو فوری طور پر تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی نہیں بلکہ کسی بھی لمحے ہمیں ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات کو منقطع کرنے کا امریکی حکم بھی آ سکتا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیلی نیوی نے ترکی کے ساتھ کھلے سمندر میں جنگی مشقیں بھی شروع کر دی ہیں اور ایران کے جنگی جہاز عراق کے اوپر منڈلا رہے ہیں۔ آج ہی عراق میں امریکہ کے سب سے بڑے ملٹری بیس پر حملہ ہوا ہے۔ یہ ساری صورتِ حال اب دن بدن مزید خراب اور سنگین ہو گی اور بالخصوص ایران کے جانب سے ممکنہ طور پر امریکہ کے خلاف سخت ردِ عمل کے نتیجے میں پاکستان کسی بھی طور متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ اس ضمن میں اگر کوئی یہ سوچ کر بیٹھا ہے کہ اس ممکنہ جنگ کا میدان ہزاروں میل دور صرف عراق ہو گا تو وہ غلطی پر ہے۔

مذکورہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کو مطلوب ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد دنیا میں تیسری جنگ عظیم کے حوالے سے بحث شروع ہو گئی ہے ۔ گوگل اور ٹویٹر پر ’ورلڈ وار تھری‘ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ امریکا میں بھی ’ورلڈ وار تھری‘ گوگل سرچ پر سب سے زیادہ بار لکھا گیا اور اس کے ساتھ امریکا سے ایران اور جنرل قاسم سلیمانی کو بھی گوگل پر سب سے زیادہ سرچ کیا گیا جو کہ فہرست میں پانچویں نمبر پر تھا۔

اسرائیلی فوج کی جانب سے بھی ایران پر حملہ خارج از امکان نہیں ،جس کا مطلب یہ ہوا کہ اسرائیل کے ایران پر کسی حملے کے اثرات پاکستان پر ضرور نمودار ہوں گے، پاکستان میں اہلِ تشیع نے کل ہی کھل کر ایران کے حق میں مظاہرے کر کے ایک بار پھر یہ واضع کر دیا ہے کہ ان کی نظریاتی ہمدریاں جہاں ایران کے ساتھ ہیں وہاں وہ ایران پر ممکنہ امریکی جنگ یا حملے کی صورت میں خاموش نہیں بیٹھیں گے جبکہ دوسری جانب اس ضمن میں کسی بھی مکتبہِ فکر یا سیاسی جماعت نے کھل کر ایران پر امریکی جارحیت کی مذمت نہیں کی۔ گویا اس معاملے پر ملک میں سوچوں کی تقسیم واضح ہے۔ اس کیفیت سے جہاں ملک دشمن عناصر فائدہ اٹھا سکتے ہیں وہاں ریاست کے لیے پاکستان میں فرقہ وارانہ تصادم اور سوچوں کے ٹکراو کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نا پسندیدہ صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ابھی سے حکمتِ عملی بنانے یا پیش بندی کی ضرورت ہے۔

امریکہ اور ایران کے حوالے سے خطے میں اس نئی پیدا شدہ صورتِ حال پر محض تشویش کا اظہار کرنے بجائے ملکی’’تھنک ٹینکس‘‘ کو چاہیے کہ ’’ایکس ٹینشن‘‘ کی ٹینشن کو فی الوقت بالائے طاق رکھ کر خطے میں ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے حالات کا مقابلہ کرنے کی حکمتِ عملی مرتب کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں پھر یہ کہا جائے کہ’’ ایران سے نکلنے والی دہشت گردی سے ہم پاکستان کو بچا سکتے ہیں، اگر پاکستان ہمیں یعنی امریکہ کو اپنے ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دے‘‘، جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔

صورتِ حال شاید ویسی ہی بننے جا رہی ہے لیکن لگ ایسا رہا ہے کہ ہم نے پرائی جنگوں کا ایندھن بننے اور اسّی ہزار جانیں دینے کے بعد بھی ابھی تک کوئی سبق نہیں سیکھا، اور ہم ابھی بھی استعمال ہونے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور اس کی شاید یہ وجہ ہے کہ ہمیں امریکا سے ڈھیروں ڈالرز ملتے ہیں۔