کچھ ہفتے پہلے پاکستان کے ضلع ننکانہ صاحب پنجاب میں ایک احمدی ، ڈاکٹر طاہر احمد کو عقیدے کی بنیاد پر قتل کر دیا گیا ۔ پچھلے چار ماہ میں یہ چوتھا احمدی نسل کشی کا واقعہ ہے ۔
ملک میں تبدیلی ، خوشحالی ، ترقی و استحکام کے جتنے بھی نعرے لگائے جائیں ان سب نعروں کا کھوکھلا پن اقلیتوں کی حالت سے ظاہر ہو جاتا ہے ۔ اقلیتیں ، بالخصوص مذہبی اقلیتیں کس حال میں ہیں ؟ کتنی خوشحال ہیں ؟ انہیں ان کے عقائد پر کاربند رہنے کیلئے کتنے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں ؟ انہیں قومی و سیاسی دھارے میں کس حد تک شامل کیا گیا ہے ؟ ان اہم سوالوں کے جوابات اگر پاکستانی اقلیتوں میں ڈھونڈے جائیں تو محرومیاں ہی محرومیاں نظر آتی ہیں ۔
احمدی کمیونٹی کی ہی مثال لے لیں ۔ احمدی ، ملکی آبادی کا 0.22 فیصد ہیں ، اس تعداد کے ساتھ پاکستان دنیا میں احمدیوں کا سب سے بڑا مرکز ہے ۔ احمدی جہاں پاکستان کی ترقی میں ایک عام شہری کیطرح اپنا کردار ادا کرتے ہیں، وہیں ملک کو پہلا نوبل انعام دلوانے کا سہرا بھی اسی کمیونٹی کے ڈاکٹر عبد السلام کے سر ہے ۔
اس کے باوجود احمدی پاکستان میں محفوظ نہیں ہیں ۔ ان کی عبادتگاہوں کو جلایا جاتا ہے ، ان کو قتل کر کے جشن منایا جاتا ہے ۔ احمدی ہی کیا ، کوئی بھی مذہبی اقلیت پاکستان میں محفوظ نہیں ہے ۔ اور اس بات کی تصدیق کمیونیٹی کے افراد خود کرتے ہیں۔
ریاست انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے- ان کے مطابق یہ حملہ برادری کے خلاف "بلا روک ٹوک ملک میں جاری نفرت انگیز مہم " کا نتیجہ تھا۔
ڈاکٹر احمد کے ساتھ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب خاندان کےتمام افراد انکے گھر میں عبادت کے لئے جمع تھے۔ احمدی اپنے گھروں کے اندر بھی محفوظ نہیں ہیں۔ وہ اپنے گھر کی چار دیواری کے اندر اپنی مذہبی ذمہ داریوں کو انجام نہیں دے سکتے۔ یہ بات پاکستان میں احمدیہ برادری کے ترجمان سلیم الدین نے ایک انگریزی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔
حالیہ مہینوں میں احمدیہ برادری کے ارکان کو نشانہ بنانے والے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ شاید ان کے خلاف نفرت ان کے لئے کورونا وائرس سے زیادہ مہلک ثابت ہوئی۔ جولائی میں ، ایک امریکی شہری ، طاہر نسیم ، کو پشاور کے کمرہ عدالت میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ تاہم بعد میں پتہ چلا کہ طاہر نسیم احمدیہ فرقے کو چھوڑ چکے تھا۔
12 اگست کو ، پشاور کے گل بہار علاقے میں حملہ آوروں نے احمدی تاجر معراج احمد کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ 10 ستمبر کو ، ایک ہجوم نے پھندو ، پشاور میں ایک احمدی کی رہائش گاہ کا محاصرہ کیا جس کو پولیس نے مداخلت کرکےختم کروایا۔ تاہم ، اس خاندان کے ایک فرد کو گرفتار کرلیا گیا اور اس پر توہین مذہب کا الزام بھی لگا دیا گیا۔
اکتوبر میں ، ایک احمدی پروفیسر کو مذہبی عقائد کی وجہ سے پشاور میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ اور نومبر میں ، ڈاکٹر طاہر محمود شدت پسندی کے ہاتھوں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پاکستان جیسا ہونا چاہئے تھا ، ویسا نہ ہو سکا ۔ قائدِ اعظم کے پاکستان میں تمام انسانوں کو مساوی حیثیت سے دیکھا گیا تھا ۔ بانئ پاکستان نے تمام انسانوں کو بلا تفریقِ رنگ و نسل ، مذہب و عقیدہ مساوی مواقع کی ضمانت دی تھی ۔ قائدِ اعظم خود اقلیتوں کے حقوق کے محافظ تھے ۔ دستور ساز اسمبلی کے پہلے خطاب میں بھی اور دیگر مواقع پر بھی بارہا کہہ چکے تھے کہ مذہب کا ملک سے کوئی تعلق نہیں۔
بدقسمتی سے قائد کی زندگی میں ہی ایسے شدت پسند عناصر پیدا ہو گئے جنہوں نے ان کے قومی یکجہتی کے سیاسی فلسفے کو جھٹلایا۔ ان کی وفات کے بعد یہ عناصر مزید سرگرم ہوئے اور قائدِ اعظم کی اصل جمہوری سیکولر روح کو تاریخ میں دفن کر دیا گیا ۔
ہماری نمائندہ و غیر نمائندہ مذہبی و سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں نے کبھی تزویراتی گہرائی کے نام پر تو کبھی مخالفین کے ووٹ بینک کو کمزور کرنے کیلئے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور مذہبی اسلامی ریاست کی بحث کا آغاز کر کے ملک کو مذہب اور فرقوں میں تقسیم کر دیا ۔ ساتھ ہی شدت پسند گروہوں کو مسلح کر کے تکفیر کی بنیاد پر قتل کا موقع دے دیا ۔ وہ یہ حقیقت نظر انداز کر گئے کہ ریاست انسانوں کے اجتماع کا نام ہوتا ہے، کسی عقیدے کا نہیں ۔ اگر کسی مخصوص مذہبی عقیدے کو ریاست پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ اجتماع ٹوٹ جائے گا ۔ وہ یہ حقیقت نظر انداز کر گئے کہ پاکستان مختلف ثقافتوں ، مذاہب ، فرقوں ، تہذیبوں کے ایک رنگا رنگ گلدستے کا نام ہے اور یہ پاکستان کو ایک کثیر الجہتی ملک بناتا ہے ۔ یہ معاشرتی تنوع ملکی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہے۔
آج پاکستان میں ایسی صورتحال ہے کہ محبِ وطن مذہبی اقلیتیں ملک چھوڑ چھوڑ کر جا رہی ہیں اور شدت پسندوں کا اسمبلیوں سے لیکر میڈیا سے لیکر گلی محلے کے مدارس تک پر راج ہے ۔ اس سے بھیانک حقیقت یہ ہے کہ اس ہولناک صورتحال پر ماسوا چند حلقوں کے اور کسی طرف سے تشویش کااظہار نہیں۔
پاکستانی سکولوں میں عدم برداشت و تکفیر پر مبنی نصاب رائج ہو چکا ہے ، جس کی پیداوار نسل موجودہ نسل سے زیادہ شدت پسندی پر مائل ہوگی ۔ معاشرے میں کالعدم شدت پسند دہشتگرد تنظیمیں اور ان کے رہنما آزاد پھر رہے ہیں جو کھلم کھلا دیگر مذاہب و فرقوں کے قتلِ عام کی بات کرتے ہیں ۔ ممتاز قادری جیسے شدت پسند قاتلوں کو ہیرو بنایا جا رہا ہے اور اس پر کوئی روک تھام نہیں ۔
جو چند قوانین و قراردادیں اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں ان کی حیثیت کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔
ایسے میں تبدیلی ، انسانی حقوق ، گڈ گورننس، آئین کی بالادستی جیسے الفاظ محض ڈھکوسلے ہیں ۔ جب تک پاکستان سے مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ نہیں ہو گا ، دوسرے مذاہب و عقیدوں کے لئے کشادہ دلی نہیں ہو گی ، اقلیتوں کو مساوی و منصفانہ مواقع نہیں دیئے جائینگے ، پاکستان میں حقیقی ترقی و خوشحالی نہیں آئے گی اور ہمیں اسی کٹے پھٹے ، خون آلود کلچر میں رہنا ہو گا تاوقتیکہ کوئی شدت پسند اسلام کا نعرہ لگا کر مار نہ دے۔
یہ بلاگ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی زندگیوں کو دستاویزی شکل دینے والی بلاگ سیریز راوادار کا حصہ ہے۔