11 اگست، 1947۔ جناح صاحب کا پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے تاریخی خطاب۔ اور اسی رات یہی خطاب اخبارات میں شائع کرنے سے روکا گیا۔ صرف ڈان کے ایڈیٹر نے مزاحمت کی اور وہ تقریر شائع کر دی۔
اس خطاب کی ریکارڈنگ اب بھی آل انڈیا ریڈیو کے پاس ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے قائد کے خطاب کی اوریجنل ریکارڈنگ حاصل کرنے کے لئے کبھی بھی سنجیدہ کوششش نہیں کی گئی۔
اندازہ کریں کہ جس ملک کی آزادی کے اعلان میں ابھی تین دن باقی تھے، اس کے بانی کی تقریر سے انکار اس بات کی واضح علامت ہے کہ قائد اعظم کے نظریات کے خلاف ایک طاقتور مخالفت اس خطے میں موجود تھی، اور یہی مخالفت ان کی موت کا بھی سبب بنی۔ جناح صاحب نے 11 اگست کو واضح کہا تھا کہ
"اب آپ اپنی مساجد اور مندروں میں جانے کے لئے آزاد ہیں، ایک وقت آئے گا جب اس ملک میں کوئی ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور مسلم مسلم نہیں رہے گا"۔
ان کا پیغام واضح تھا کہ یہ اس ملک کے باشندے ہی اس ملک کے مالک ہوں گے، اور پاکستان مذہب سے ماورا تمام پاکستانیوں کا ملک ہوگا۔ انہوں نے اس روز اس ملک میں رہنے والی غیر مسلم اقلیت سے اپیل کی کہ وہ ملک چھوڑ کر نہ جائیں۔
ان کے انہی نظریات کے خلاف جو جنگ 71 سال پہلے شروع ہوئی تھی وہ اب بھی جاری ہے۔ پاکستان کی اشرافیہ اور اس کی اکثریت قائد اعظم کے نظریات سے اب بھی حالت جنگ میں ہے۔ انہیں قائد اعظم صرف کرنسی نوٹوں پر، اشرافیہ کی کرسی کے اوپر اور بارہ ماہ میں صرف دو تین مہینوں کے دوران بیان جاری کرنے کے لئے چاہئیں۔
اگر قائد اعظم کے ساتھ اس ملک کی اشرافیہ کو معمولی سی بھی محبت ہوتی تو وہ 11 اگست کی تقریر روکنے والوں، فاطمہ جناح کو ایک جھرلو الیکشن میں شکست دینے والوں، اور ان کی موت کے اسباب کی تحقیقات ضرور کرواتی۔
مصنف اسلام آباد میں مقیم سینیئر سیاسی رپورٹر ہیں۔ ملکی سیاست پر ان کے مضامین و تجزیے مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔