محصولات کی منصفانہ وصولی کے بغیر معاشی خود انحصاری ممکن نہیں

یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی حکومتیں مالیاتی خسارے کو کم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ قرضوں پر بھاری سود کی ادائیگی ہے۔ 2022-23 میں یہ ادائیگی 5696 بلین روپے تھی جبکہ رواں مالی سال میں یہ ادائیگی 9000 ارب روپے تک پہنچ سکتی ہے۔

محصولات کی منصفانہ وصولی کے بغیر معاشی خود انحصاری ممکن نہیں

محصولات کی منصفانہ وصولی اور اُن سے عام لوگوں کی حالت کو بہتر بنائے بغیر معاشی خود انحصاری کا خواب ہرگز پورا نہیں ہو سکتا۔ 2024 کے انتخابات سر پر ہیں، لیکن ہماری روایتی سیاسی جماعتوں کے پاس پاکستان کو ایک حقیقی جمہوری فلاحی مملکت بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ کسی بھی روایتی سیاسی جماعت نے تاحال انتخابی منشور میں یا کسی اور جگہ اس کا ذکر بھی نہیں کیا۔ اس کے برعکس وہ آج بھی اپنے ذاتی مفاد کے لیے، اقربا پروری، چمچہ گیری، نااہل افراد کی سرپرستی کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔

ماضی میں قانون کی پامالی، شفافیت اور انصاف کی خلاف ورزی اور ان افعال کا محاسبہ کرنے والے اداروں کی تباہی کے ذمہ دار افراد اب پھر انتخابات کے لئے اہل قرار دیے گئے ہیں اور بہت سے اہل افراد کو پوشیدہ ہاتھوں نے انتخابات سے باہر کروا دیا ہے۔ یہ وہی پوشیدہ ہاتھ ہیں جو من پسسند افراد کے ساتھ مل کر ریاست اور ریاستی اداروں کی آئینی فعالیت کو کسی نہ کسی بحران سے دوچار کرتے رہے ہیں تاکہ ان کے مذموم مقاصد کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ آئے۔

'سٹیٹ آف پاکستان اکانومی' پر اپنی سالانہ رپورٹ میں سٹیٹ بینک آف پاکستان لکھتا ہے کہ ایف بی آر ٹیکسیشن کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ گذشتہ 10 برسوں میں جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس کی شرح 8.5 فیصد سے 9.5 فیصد تک رہی ہے۔ سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ 2030 تک جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس کی شرح 15 فیصد کرنے کے لیے حکومت کو معیشت کو دستاویزی کرنے اور ٹیکس کے دائرے کو بڑھانے جیسے مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے۔

مالی سال 2022-23 کے دوران خسارے کی شرح جی ڈی پی کا 7.7 فیصد تھی۔ یہ شرح گذشتہ مالی سال کی نسبت قدرے کم لیکن پھر بھی 4.9 فیصد کے ہدف سے بہت زیادہ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ محصولات توقع کے مطابق جمع نہ کیے جا سکے۔ بجٹ میں تمام ٹیکسز، جو ایف بی آر نے اکٹھے کرنے تھے، کی شرح نمو پچھلے سال کے 30 فیصد کے مقابلے میں محض 16.7 فیصد رہی جبکہ صرف مہنگائی کی شرح 25 فیصد سے زیادہ تھی۔

ٹیکس کی شرح کو متاثر کرنے والے عوامل یہ ہیں؛

(1) درآمدات میں شدید کمی، جس کی وجہ سے سیلز ٹیکس کا حجم کم ہو گیا

(2) ٹیکس کے نفاذ میں نہ ختم ہونے والے مسائل حل کرنے میں حکومت کی نااہلی

(3) پیداواری سرگرمی میں کمی کا رجحان

سٹیٹ بینک کے مطابق ٹیکس کے حصول میں جمود کے رجحان کی وجہ سے ترقیاتی اخراجات کو کم کرنا پڑا تا کہ مالیاتی توازن کو مستحکم کرتے ہوئے خسارے کو حد کے اندر رکھا جائے۔

محصولات میں ہونے والی کمی کی وجہ سے ترقیاتی اخراجات کم کرنے پڑے۔ اس کا معاشی ترقی پر منفی اثر پڑا کیونکہ ترقیاتی اخراجات سرمایہ کاری بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں لیکن کم محصولات کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔

سٹیٹ بینک نے ٹیکس کے نظام کے بنیادی مسائل کی نشاندہی کی ہے جو یہ ہیں؛

(1) ڈاکیومنٹ کا فقدان اور غیر دستاویزی معیشت کا وسیع حجم

(2) ٹیکس چوری کی کم معاشی اور سماجی قیمت

(3) خود تشخیصی نظام کے تحت ٹیکس کی ادائیگی میں حائل پیچیدگی

(4) ٹیکس اکٹھا کرنے والے شعبے کے انتظامی مسائل

سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے عارضی بنیادوں پر کیے گئے اقدامات کام نہیں دیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ محصولات میں اضافہ کرنے کی مصنوعی کوششیں، جیسا کہ حکومت کر رہی ہے، کار لاحاصل ثابت ہوں گی۔ اس کے لیے معاشرے کے تمام دھڑوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے والی ایک قومی کوشش کی ضرورت ہو گی۔ ایسی قومی کوشش کی بہت دیر سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے، لیکن لگتا ہے کہ اب سٹیٹ بینک کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا ہے۔ مزید تاخیر معاشی جمود کا باعث بنے گی اور معیشت کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہو گی۔

2022-23 میں ٹیکس اور غیر ٹیکس محصولات کا کل حجم 9634 بلین روپے تھا۔ اس طرح بجٹ میں طے شدہ شرح نمو میں نصف اضافہ ہی ممکن ہو سکا۔ اس کی وجہ محصولات میں تقریباً 600 بلین کی کمی تھی۔ ایف بی آر کی طرف سے مالی سال 2023 میں جمع کردہ محصولات 7169 بلین روپے تھے جبکہ اصل ہدف 7470 بلین روپے تھا۔

2022-23 کے دوران کل قومی اخراجات کی شرح جی ڈی پی کا 19 فیصد رہی، جبکہ قومی محصولات جی ڈی پی کا 11.4 فیصد تھے۔ وفاقی حکومت کے بڑے اخراجات میں سابق قرضوں پر سود کی ادائیگی سرفہرست تھی جو کہ جی ڈی پی کا 6.7 فیصد تھے۔

یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی حکومتیں مالیاتی خسارے کو کم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ بھاری سود کی ادائیگی ہے۔ 2022-23 میں یہ ادائیگی 5696 بلین روپے تھی اور یہ صورت حال ہر گزرنے والے سال کے ساتھ خراب ہوتی جائے گی۔ رواں مالی سال میں یہ ادائیگی 9000 ارب روپے تک جا سکتی ہے جبکہ بجٹ میں اس کا تخمینہ 7303 ارب روپے لگایا گیا ہے۔

حکومتیں پوٹینشل کے مطابق محصولات جمع کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ دولت مند اور خوشحال طبقے کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان معاشی طور پر دیگر ریاستوں کا دست نگر بن چکا ہے۔ ہر کوئی آئی ایم ایف پر تنقید کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے اب حکومت کو اربوں روپے کے اضافی ٹیکس لگانے پڑتے ہیں، لیکن کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہم پوٹینشل کے مطابق ٹیکس جمع کرنے میں ناکام ہیں۔ ہماری غلطیوں کی وجہ سے پاکستان قرض کے نہ ختم ہونے والے جال میں پھنس چکا ہے۔ چنانچہ آئی ایم ایف کو مورد الزام ٹھہرانے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا، اصل میں قصوروار ہم خود ہیں۔ پاکستان کے دولت مند اور خوشحال طبقے ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ مزید ستم یہ کہ وہ عام ٹیکس دہندگان کی رقم پر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر شہروں میں اشرافیہ کے بنگلے، مہنگی گاڑیاں، غیر ملکی سفر، ہوٹلنگ اور دیگر تعیشات دیکھیں اور انکم ٹیکس کے سکڑے ہوئے دائرے پر نظر ڈالیں تو تمام مسائل سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ ان کی تفہیم کے لیے آپ کو اکانومسٹ ہونے کی ضرورت نہیں۔

پاکستان میں غریب افراد پر بھاری بھرکم بالواسطہ ٹیکسز کا بوجھ لاد دیا گیا لیکن اشرافیہ ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ اس سے پیدا ہونے والی شدید معاشی ناہمواری ہمارے مسائل کی اصل جڑ ہے۔ اگر عوام جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر ہوں اور جی او آرز کی سکیورٹی محفوظ قلعوں کی مانند ہو تو ریاست کی ترجیحات سمجھ میں آ جاتی ہیں کہ یہاں عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں واحد جرم غریب اور کمزور ہونا ہے۔

عوام کے لیے تعلیمی سہولیات ہیں اور نا ہی ہسپتال ہیں۔ ان کے لیے روزگار، پینے کا صاف پانی، سستی رہائش اور ٹرانسپورٹ جیسی سہولیات حکومت کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں۔ اس وقت 70 فیصد سے زیادہ سیلز ٹیکس پٹرولیم مصنوعات سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کا دباؤ غریب آدمی پر ہی پڑتا ہے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے زیادہ دانا ہونے کی ضرورت نہیں کہ اس طرح کے تمام بالواسطہ ٹیکسز کا بوجھ صارف پر ڈال دیا جاتا ہے چنانچہ موجودہ معاشی نظام کے تحت امیر زیادہ سے زیادہ خوشحال جبکہ غریب زیادہ سے زیادہ غریب ہوتے جا رہے ہیں۔

ستم یہ ہے کہ ٹیکس ادا کرنے کے باوجود غریب آدمی کو سہولیات نہیں ملتیں۔ جب تک وسائل کا زیاں نہیں روکا جاتا اور معاشی ہمواری قائم نہیں کی جاتی، ہم معاشی خود انحصاری حاصل نہیں کر سکتے۔

تمام ووٹرز کو 8 فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات میں اپنا حق رائے دہی سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہو گا۔ اب کی مرتبہ بہت سے امیدوار ترقی پسند سوچ رکھنے والی جماعتوں سے بھی ہیں۔ عوام کو ان کی حمایت کرنا ہو گی تا کہ وہ عوام دشمن سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کے چنگل سے آزاد ہو کر ترقی پسند اور عوام دوست امیدواروں کا انتخاب کر سکیں جو وطن عزیز کو حقیقی جمہوری فلاحی ریاست میں بدل سکتے ہیں۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔