پچھلے دو دنوں میں دو بہت ہی اہم ترین واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے اندازہ ہو رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں وطن عزیز کے سیاسی سمندر میں آثار تلاطم برپا ہونے والے ہیں۔ ایک جیل سے کپتان کا لکھا گیا کالم جو معروف برطانوی اخبار دی اکانومسٹ میں شائع ہوا ہے جبکہ دوسرا تحریک انصاف کا قاضی القضاۃ فائز عیسیٰ پر اظہار عدم اعتماد۔ یہ دونوں غیر معمولی واقعات ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کپتان نے مارو یا مر جاؤ یا یوں کہہ لیں آر یا پار کا فیصلہ کر لیا ہے۔
جیل سے کالم لکھنا، اس کا باہر آنا اور بین الاقوامی اخبار میں شائع ہونا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ اس کالم میں کپتان نے 8 فروری کو الیکشن کے نام پر ہونے والے ڈھونگ کو بے نقاب کر دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ہئیت مقتدرہ کو عریاں کر دیا ہے۔ کپتان نے اپنے اس کالم میں مبینہ طور پر ہونے والے آپریشن رجیم چینج کو پھر دہرایا ہے اور امریکی اہلکاروں اور اس وقت کی پاکستانی فوجی و سیاسی قیادت کے ملوث ہونے کے اپنے مؤقف کو پھر بیان کیا ہے۔ غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بین الاقوامی سطح کے اخبار میں کپتان نے خود ان باتوں کو لکھا ہے۔ اب جیل انتظامیہ اور ان کے آقا کپتان کو کاغذ قلم کی سہولت سے محروم کر دیں گے۔
اپنے کالم میں کپتان نے پاکستان کی ہئیت مقتدرہ جس میں فوجی، سول بیوروکریسی اور سپریم کورٹ شامل ہیں، سب کو ایک ہی قطار میں کھڑا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ سب مل کر 8 فروری کو ہونے والے الیکشن میں تحریک انصاف کو باہر کرنے کے لیے کیا کچھ کر رہے ہیں۔ ایک آدمی جو جیل میں ہو، اس پر بے پناہ دباؤ ہوتا ہے۔ وہ باہر نکلنے کے لیے مختلف رابطے کرتا ہے۔ کچھ معاملات طے کرتا ہے تا کہ جیل سے نکلا جا سکے۔ اسی بات کا فائدہ ہمیشہ ہماری ہئیت مقتدرہ نے اٹھایا ہے۔ وہ ہمیشہ مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے، سیاست دانوں کی ساکھ خراب کر کے ان کو جیل بھیج کر، پھر ان سے ڈیل کرتی ہے، مگر ہئیت مقتدرہ اس بار چوک گئی۔ ساکھ سیاست کار کی خراب ہوتی ہے، ہیرو کی نہیں۔ کپتان ہیرو ہے، سیاست تو شاید آج بھی اس کو نہیں کرنی آتی۔
جیل تو آصف علی زرداری نے بھی دلیری سے کاٹی تھی مگر اس کی ساکھ پاکستان تو کیا نواب شاہ میں بھی اچھی نہیں تھی۔ یہی حال نواز شریف کا تھا۔ وہ صرف وسطی پنجاب کا لیڈر تھا، بدعنوانی کے الزامات کے نیچے دبا ہوا تھا، ہر بار جیل سے ڈیل کے ذریعے نکل جاتا تھا۔ کپتان کا معاملہ کچھ اور ہے۔ وہ جیل میں 150 دنوں سے ہے۔ اس کے خلاف سائفر کیس، توشہ خانہ کیس، القادر ٹرسٹ کیس سب پانی کے بلبلے ثابت ہو رہے ہیں۔ عوام میں اس کی بے پناہ مقبولیت کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ کپتان کا دلیری سے جیل کاٹنا اور ہر قسم کی ڈیل سے انکار کرنا ایک نئی تاریخ رقم کر رہا ہے۔ وطن عزیز کی تاریخ میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا نام آتا تھا مگر اب کپتان ذوالفقار علی بھٹو سے بھی آگے نکل چکا ہے۔ وہ مقبولیت کی معراج پر ہے۔
دوسری طرف قاضی القضاۃ ماضی بھلانے کو تیار نہیں ہیں۔ جو غلط فیصلہ کپتان نے اس وقت کی فوجی قیادت کے کہنے پر قاضی القضاۃ کے خلاف ریفرنس بھیج کر کیا تھا اس کو اب انہوں نے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ وہ اپنی ذات کے حصار میں قید ہو چکے ہیں۔ ان کا رویہ تحریک انصاف کے ساتھ جیسا ہے وہ نوشتہ دیوار ہے۔ آج نہیں تو کل تحریک انصاف نے یہ عدم اعتماد کرنا ہی تھا۔ مجھے عظیم نیلسن منڈیلا یاد آتا ہے جو 23 سال جیل کاٹ کر جب باہر نکلا تو اس نے کہا کہ میں اپنے سارے تعصبات جیل میں چھوڑ آیا ہوں مگر افسوس کہ قاضی القضاۃ کا منڈیلا والا ظرف نہیں ہے۔
کچھ اخبار نویس مسلسل لکھ رہے ہیں کہ کپتان اگر اقتدار میں آ گیا تو وہ کسی کو معاف نہیں کرے گا۔ کیا سیاست کار، کیا جرنیل اور کیا جج؛ وہ سب کو پھانسی پر چڑھا دے گا۔ کیا وطن عزیز کی 75 سالہ تاریخ میں جیل میں قید کسی سیاست کار کا ایسا خوف کسی نے کبھی دیکھا ہے؟ جیل ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کاٹی تھی، جیل میں کتاب بھی لکھی تھی جو ان کے مرنے کے بعد شائع ہوئی مگر وہ کچھ نہیں لکھا جو کپتان نے اپنی زندگی میں جیل میں قید ہو کر دی اکانومسٹ اخبار میں لکھ دیا ہے۔
اب تو لگتا ہے آخری دور چل رہا ہے۔ اس کالم کے بعد تو آثار تلاطم ہی نظر آتے ہیں۔ ایک طرف کپتان ہے جو جیل میں ہے جبکہ دوسری طرف قاضی القضاۃ، سپہ سالار، چیف الیکشن کمیشن، نواز شریف، آصف زرداری، فضل الرحمان، ایمل ولی اور چند اہم صحافی ہیں جو سب کے سب مبینہ طور پر کپتان کو اس کے انجام تک پہنچانے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔