12 اکتوبر صبح ڈھائی بجے مشرف نے ایک کمانڈو سے وردی مستعار لے کر قوم سے خطاب کیا۔ پاکستان میں جمہوریت کی ایک اور دہائی زوال پذیر ہو چکی تھی۔ ابتدا میں ہر فوجی ڈکٹیٹر کی طرح مشرف صاحب نے بھی کرپشن کے خلاف محاذ کھولنے کی صدا بلند کی۔ یہ کھیل اس سے قبل ایوب، یحییٰ اور ضیا کھیل چکے تھے۔ مسلم لیگ نواز کی مخالف سیاسی جماعتوں نے اس غیر قانونی قدم پر افسوس کی بجائے خوشی کا اظہار کیا۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے آواز اٹھانے والے ادارے، جنہیں میڈیا، ملا اور بہت سے نام نہاد پڑھے لکھے لوگ کسی بھی موقعے پر تنقید کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے، فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ تاریخ یاد رکھے گی کہ جس روز شریف حکومت گرنے پر پیپلز پارٹی اور عمران خان جشن منا رہے تھے، اسی روز عاصمہ جہانگیر کی قیادت میں جائنٹ ایکشن کمیٹی نے دھڑن تختے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: عاصمہ جہانگیر کی یادیں، قسط 6: پاکستان میں آخری آمریت کے خلاف پہلی اینٹ
نواز شریف پر ہائی جیکنگ کا مقدمہ اور مسلم لیگ پر قید و بند کا سلسلہ
نواز شریف اور ان کی جماعت کی قیادت کے خلاف قتل اور ہائی جیکنگ کے مقدمات قائم کیے گئے۔ نیب نامی ادارہ سیاست دانوں کی ڈرائی کلیننگ کے لئے قائم کیا گیا اور اس عمل کی 'شفافیت' کی تفصیلات شاہد عزیز کی کتاب میں دستیاب ہیں۔ نیب آرڈیننس کے تحت گرفتار شدگان کو غیر معینہ مدت تک قید رکھا جا سکتا تھا۔ گرفتار شدہ سرکاری افسران اور سیاستدانوں میں سے بہت سوں کو اٹک قلعے میں قید رکھا گیا۔ جاوید ہاشمی نے اپنی کتاب 'ہاں میں باغی ہوں' میں لکھا:
"ہمارے گھروں کو فوجی جوانوں نے گھیر لیا اور ہماری نقل و حرکت پر پابندی لگا دی۔ پرویز مشرف دور میں یہ میری پہلی باقاعدہ گرفتاری تھی"۔ صدیق الفاروق کو کراچی سے گرفتار کر کے کئی ماہ قید تنہائی میں رکھا گیا۔ جون سنہ 2000 تک 132 افراد نیب کی حراست میں تھے۔ مشاہد حسین اور چودھری نثار کو ایک سال تک نظر بندی میں رکھا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: سیاست نوے کی دہائی میں، آخری قسط: پی ٹی وی پر ساری رات ملی نغمے اور فوجی ترانے چلتے رہے
مشرّف کے اقتدار پر قبضے کے وقت پیپلز پارٹی کا کردار
ابتدا میں پیپلز پارٹی نے مشرف کی عارضی کابینہ میں شمولیت کا عندیہ دیا لیکن جب نئی حکومت نے بینظیر صاحبہ کو قانونی بھگوڑا قرار دیا تو پیپلز پارٹی کی طرف سے غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ نواز شریف کو گرفتاری کے بعد کراچی کی ملیر جیل میں رکھا گیا۔ سول ایوی ایشن کے سربراہ امین اللہ چودھری نے نواز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننا قبول کیا۔ امین اللہ چودھری نے اپنی کتاب میں ذکر کیا کہ ان پر تشدد کیا گیا اور دل کا مریض ہونے کے باوجود طبی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں اور اس شدید دباؤ کے باعث انہوں نے خفیہ اداروں کے ساتھ تعاون کیا۔ یاد رہے کہ نواز شریف نے انسداد دہشت گردی عدالتیں قائم کی تھیں اور انہی عدالتوں میں ان کا مقدمہ چلایا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستانی قانون میں ہائی جیکنگ کے ضمن میں قانون مشرف کی آمد سے قبل موجود نہیں تھا۔
https://youtu.be/M3tkur8LsYo
مشرّف کے اقتدار میں آنے کے بعد دہشتگردوں کا پہلا بڑا کارنامہ، بھرتی طیارہ ہائی جیک
مشرف حکومت کے قیام کو بمشکل دو ماہ گزرے تھے کہ ائر انڈیا کا کھٹمنڈو سے اڑنے والا طیارہ اغوا کر لیا گیا۔ جہاز میں 178 مسافر تھے اور زیادہ تر کا تعلق بھارت سے تھا۔ ہائی جیکروں نے پائلٹ کو دہلی کی بجائے طیارہ پاکستان لے جانے کا حکم دیا۔ پائلٹ نے فیول کی کمی کا بہانہ کیا لیکن ایک ہائی جیکر طیارہ اڑانے کی بنیادی تربیت رکھتا تھا اور اس نے بھانپ لیا کہ پائلٹ جھوٹ بول رہا ہے۔ اس دوران پاکستانی حکومت نے طیارے کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی لہٰذا امرتسر میں لینڈنگ کرنی پڑی۔ امرتسر سے فیول حاصل کرنے کے بعد طیارہ لاہور لے جایا گیا جہاں پہلے تو انتظامیہ نے ائرپورٹ کی بتیاں بجھا دیں لیکن بالآخر لینڈنگ کی اجازت ملی۔ اس کے بعد طیارے کو متحدہ عرب امارات لے جایا گیا (جہاں 27 بچوں اور عورتوں کے ساتھ ایک زخمی اور ایک ہلاک شدہ مسافر کو اتار دیا گیا) اور اس کے بعد قندھار۔ قندھار ائرپورٹ پر کلاشنکوفوں اور راکٹ لانچروں سے مسلح طالبان نے ہائی جیکروں کا استقبال کیا۔ اس موقعے پر مسافروں کو چائے دی گئی اور سگریٹ نوشوں کو سگریٹ پینے کے لئے علیحدہ جگہ۔
'قندھار میں پاکستانی خفیہ اداروں کے لوگ ہائی جیکروں کی مدد کے لئے موجود تھے'
بھارتی انٹیلی جنس افسر اجیت دوال، جو بھارت کی جانب سے بھیجی جانے والی مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھے، کے مطابق قندھار میں پاکستانی خفیہ اداروں کے لوگ ہائی جیکروں کی مدد کے لئے موجود تھے۔ ہائی جیکروں نے مسافروں کے بدلے بھارتی جیلوں میں قید 36 پاکستانی جہادیوں کی رہائی اور دو کروڑ امریکی ڈالروں کا مطالبہ کیا۔ ان جہادیوں میں مسعود اظہر اور عمر سعید شیخ شامل تھے۔ سنہ 1994 میں گرفتار ہونے کے بعد مسعود اظہر کو جیل سے چھڑوانے کے لئے اس سے قبل کئی کوششیں کی جا چکی تھیں۔ عمر سعید شیخ نے دہلی میں چار غیر ملکی سیاحوں کا اغوا کیا تھا اور ان کے بدلے مسعود اظہر کی رہائی کا مطالبہ کرنا تھا لیکن منصوبہ ناکام ہوا تھا۔ اس کے علاوہ جیل سے فرار کے لئے ایک سرنگ کھودی گئی تھی لیکن مسعود اظہر کے 'حجم' کے باعث یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ مشرف کے حکومت سنبھالنے پر مسعود اظہر نے جیل سے ایک خط لکھا تھا جس میں مشرف کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور اسے پاکستان اور اسلام کا خادم قرار دیا گیا تھا۔ چھے روز مذاکرات کے بعد بھارتی حکومت نے مسعود اظہر، عمر سعید اور مشتاق احمد زرگر کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔ بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ رہا شدہ جہادیوں کے ساتھ قندھار پہنچے اور مسافروں کو رہائی ملی۔
https://youtu.be/FpiH7mc0iYE
10 مارچ سنہ 2000 کو نواز شریف کے وکیل اقبال رعد کو ان کے دفتر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ 5 اپریل کو نواز شریف کو انسداد دہشت گردی عدالت میں ہائی جیکنگ اور دہشتگردی کے ضمن میں سزائے موت سنائی گئی۔
https://youtu.be/AQKaNuyD5pg
بیگم کلثوم نواز کی لازوال جدوجہد
12 مئی کو ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے مشرف کے غیر قانونی اقدام کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا، مشرف کو قانون سازی کا اختیار دیا اور حکومت کو تین سال کے اندر انتخابات منعقد کروانے کا حکم دیا۔ اس بینچ میں جسٹس ارشاد حسن خان، افتخار چودھری اور رانا بھگوان داس شامل تھے۔ جولائی سنہ 2000 میں بیگم کلثوم نواز نے نواز شریف کو دی گئی سزا کے خلاف لاہور سے پشاور تک احتجاجی ریلی کا قصد کیا لیکن حکومت نے انہیں ایسا کرنے سے روکا اور ایک موقعے پر ان کی موجودگی میں ان کی گاڑی لفٹر کے ذریعے اٹھا کر تھانے پہنچا دی گئی تھی جہاں وہ کئی گھنٹے محبوس رہیں۔
ہمیں علم تھا کہ ظالم کو شکست ہو گی، اس کا حوصلہ جواب دے جائے گا اور بالآخر ایسا ہی ہوا
اسی روز پو پھٹتے ہی ملک بھر سے درجنوں سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ جاوید ہاشمی کے مطابق "حکومت نے چاروں طرف سے ان کے گھر کا گھیراؤ کر لیا۔ وہ تمام پابندیاں توڑ کر باہر نکلیں۔ چودھری صفدر الرحمن، سابق ایم این اے ان کی گاڑی چلا رہے تھے۔ تہمینہ دولتانہ اور میں ان کے ساتھ تھے۔ پولیس جب گاڑی نہ روک سکی تو ٹریفک روک کر گاڑی کو کرین کے ذریعے پولیس لائن میں لے گئے۔ بیگم کلثوم نواز نے ہتھیار نہ ڈالے اور کرین کے ذریعے اٹھائی ہوئی گاڑی کی تصویریں بین الاقوامی اخبارات میں چھپ گئیں"۔ کلثوم نواز نے سہیل وڑائچ کو اس واقعے کے متعلق بتایا: "میں گھبرائی نہیں، ہمارے حوصلے بلند تھے، ہمیں علم تھا کہ ظالم کو شکست ہو گی، اس کا حوصلہ جواب دے جائے گا اور بالآخر ایسا ہی ہوا"۔
دوسری قسط یہاں پڑھیے: مشرّف کابینہ، ن لیگ میں ٹوٹ پھوٹ، اور اے آر ڈی کی تشکیل