این آر او ۔ بے نظیر بھٹو قوم کی مُجرم یا مُحسن؟

این آر او ۔ بے نظیر بھٹو قوم کی مُجرم یا مُحسن؟
تحریر:( امام بخش) پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں امریکہ کی ہر مانگ پوری ہو رہی تھی (جن کے نقصانات کا ازالہ ہماری کئی نسلیں کرتی رہیں گی) لہٰذا وہ مکمل طور پر پاکستان کے غیر آئینی حکمران کی پشت پر کھڑا تھا۔ ڈکٹیٹر کے شکنجے میں جکڑا ہوا پاکستان لاتعداد مسائل میں گھرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی دلدل میں مسلسل دھنستا جا رہا تھا۔ صوبہ بلوچستان میں آگ لگی ہوئی تھی۔ شمالی علاقہ جات مکمل طور پر دہشت گردوں کے قبضے میں چلے گئے تھے۔ پاک فوج کے خلاف عوام میں نفرت روز بروز بڑھ رہی تھی۔ لیکن پاکستان کی اس بدترین صورت حال سے ڈکٹیٹر اور اس کے حواری بالکل لاپرواہ تھے۔

دوسری طرف امریکی اور اس کے اتحادی افغانستان میں جنگ کی طوالت سے پریشان تھے، جو جلد از جلد جنگ بندی چاہتے تھے۔ اِن کی ہر فرمائش پوری کرنے والا پرویز مشرف کوششوں کے باوجود افغانستان میں جنگ بندی کرانے سے لاچار تھا بلکہ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان آفریت بن کر ٹوٹ پڑی تھی، جس کی وجہ پاکستان میں دہشت گردی عروج پر پہنچ گئی تھی۔ اس صورت حال میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے عالمی طاقتوں کو باور کرایا کہ اگر وہ باوردی صدر کی حمایت چھوڑ دیں اور پاکستان میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کی راہ ہموار کریں تو وہ جنرل (ر) نصیراللہ بابر کے ذریعے افغانستان میں جنگ بندی کروا سکتی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنگ مخالف لابی میں شامل فرانس اور جرمنی ایسے ممالک کو اپنے نقطہ نظر کا حامی بنا لیا۔ اِن حالات میں امریکہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف میں معاہدہ کرانے پر مجبور ہو گیا۔

پرویز مشرف نے اکتوبر 2007ء میں این آر او جاری کیا اور نومبر 2007ء میں وردی اُتار دی۔ وردی کو بجا طور پر اپنی کھال سمجھنے والے پرویز مشرف بہت بڑی خطا کر بیٹھے تھے، لہٰذا وہ وردی اُترنے کے بعد زہریلے سانپ کی جگہ فقط کیچوا بن کر رہ گئے۔

اس کے بعد وہ معاہدے کی ایک اور اہم شق یعنی تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ پر پابندی ختم کرنے سے انکاری ہو گئے۔ مزید برآں، پرویز مشرف نے دوسری بار آئین شکنی کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی لگا کر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت ملک کی اعلٰی عدلیہ کے درجنوں ججوں کو برطرف کر کے انہیں گھروں میں نظر بند کرنے کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا پر بھی متعدد پابندیاں عائد کر دی تھیں جس کے باعث بیشتر ٹیلی ویژن چینلز کئی روز تک بند رہے تھے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو امریکہ اور اس کے کٹھ پتلی پرویز مشرف سے کیے گئے معاہدے کو پس پشت ڈال کر فقط پاکستان کے آئین اور ریاستی نظام کو جمہوری بنانے کے لیے تنِ تنہا میدانِ کار زار میں اُتر پڑیں۔ جب وہ کراچی ایئرپورٹ پر اُتریں تو اُن کے استقبال کے لیے سڑکوں پر ٹھاٹھیں مارتا ہوا عوام کا سمندر موجود تھا۔ لاکھوں لوگ محوِ رقص تھے۔ عوام کی والہانہ محبت دیکھ کر وہ خوشی سے سمائے نہیں جا رہی تھیں اور اُن کی آنکھوں سے شکرانے کے آنسو رواں تھے۔ جب وہ کارساز کے مقام پر پہنچیں تو غصے سے تلملاتے دشمنوں نے خوفناک ردعمل دیتے ہوئے دھماکے کر دیئے، جس کی وجہ سے سینکڑوں جیالے شہید اور زخمی ہو گئے۔ دُشمنوں کا پیغام واضح تھا کہ جان بچا کر پاکستان سے واپس لوٹ جائیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے سانحہ کارساز کے بعد ہمت نہ ہاری بلکہ دہشت گردوں، مذہبی انتہا پسندوں اور مقتدرہ کے آمرانہ عناصر کے گٹھ جوڑ کو پہلے سے زیادہ شدت سے للکارنے لگیں۔ بی بی بہت اچھی طرح جانتی تھیں کہ اُن کی ہر جلسہ گاہ میں دہشت گرد گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ اُن کے رفقاء کی طرف سے اُنھیں بار بار روکنے پر اُن کا اصرار تھا کہ ملک و قوم کو درپیش خطرات سے نجات اور پاکستان کو ایک جمہوری اور روشن خیال بنانے کے لیے ان کے پاس عوام کو متحرک کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اُن کو اچھی طرح معلوم تھا کہ القاعدہ، طالبان، ڈکٹیٹر مشرف اور اس کے بے مہار کارندے اُنہیں مارنے پر تُلے بیٹھے ہیں، لیکن وہ ایک قدم پیچھے نہیں ہٹیں اور منزل کی طرف پیش قدمی جاری رکھی۔

راولپنڈی کے جلسہ عام میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے باکمال خطاب کیا، اُنہوں نے پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے، ترقی پسند، جمہوری اور عوامی پاکستان کے لیے اپنا لائحۂ عمل دیا۔ اِس جلسہ عام سے اُن کی واپسی نہ ہوئی اور وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ اُن کی شہادت پر جو ملک میں کہرام مچا، شاید کبھی کسی رہنما کی موت پر ایسا منظر تاریخ نے دیکھا ہو۔ اور جو خلأ پیدا ہوا، وہ پُر ہونے کو نہیں ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی واپسی ہی تھی، جس سے وکلاء کی تحریک نے زور پکڑا اور میاں نواز شریف کی واپسی کا راستہ ہموار ہوا۔

پرویز مشرف خاندانِ شریفاں کے ساتھ دس سالہ معاہدے کے تحت اُنھیں پاکستان میں داخل ہونے کی قطعاً اجازت نہ دیتے۔ نہیں یقین تو یاد کیجیئے کہ کس طرح شریف برادان کی پاکستان میں آنے کی کوششوں کی خوب درگت بنائی گئی تھی۔ ایک بار تو نوازشریف کو اِسلام آباد ایئرپورٹ پر ڈنڈا ڈولی بنا کر ٹوائلٹ میں پھینک دیا گیا تھا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اُن کے خاوند آصف علی زرداری ہی تھے جنہوں نے مشرف کو مواخذے کے زور پر صدارتی محل چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ جو لوگ جنرل مشرف کو گارڈ آف آنر دینے کا طعنہ دیتے نہیں تھکتے وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ جنرل مشرف کا نظام ہی تھا، جس کے تحت اُنھوں نے گارڈ آف آنر لیا تھا مگر ایک ڈکٹیٹر سے اقتدار چھین کر پاکستان کو جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھانا عظیم کارنامہ تھا، جسے بے دلیلے اور بے سمتے لوگ کبھی اپنی زبان پر نہیں لاتے۔

اب ہم اِس پہلو کا جائزہ لیتے ہیں کہ اگر این آر او نہ آتا تو کیا صورت حال ہوتی؟

اگر این آر او نہ آتا تو شریف برادران یقینی طور پر بالوں کی نئی وگیں لگا کر لندن میں "کِم بارکروں" سے ملاقاتوں میں مشغول ہوتے، اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹوں میں کھابے اُڑا رہے ہوتے، صحافیوں کے سامنے آنکھوں میں آنسو بھر بھر کر روہانسی آواز کے ساتھ المیہ انداز میں پختہ اداکاری کے ساتھ بڑے بڑوں کو رلا رہے ہوتے، قرآن کی قسمیں کھا رہے ہوتے کہ اب وہ یکسر بدل گئے ہیں، لہٰذا اب وہ صرف اصولوں کی سیاست کریں گے۔

سیاسی پارٹیوں کی اکثریت باوردی صدر کی آئینی پاسباں بن کر ایل ایف او طرز کی ترامیم سے آئین پاکستان کے بخیئے ادھیڑ رہی ہوتیں۔ عمران احمد خان نیازی باوردی صدر کے ریفرنڈم کی پولنگ ایجنٹی کر رہے ہوتے یا پھر دھاندلی کے ذریعے وزیرِ اعظم بننے کی فریادیں کر رہے ہوتے یا پھر شاید اپنی سلیکشن جلد کرانے میں کامیاب ہو جاتے۔

عدالتیں فردِ واحد کی آئین شکنیوں کے سامنے کورنش بجا لاتے ہوئے ڈِکٹیٹ کیے ہوئے فیصلوں پر آمناً و صدقناً کہتی نہ تھکتیں۔

المختصر، مجموعی طعر پر میڈیا سمیت سب سر جھکائے خاموشی سے ہر حکم کی بجا آوری کرتے رہتے کیونکہ وہ سب جان چکے تھے کہ برگد کے اسی پیڑ کے نیچے بیٹھنے سے ہی نروان ملے گا۔ اس صورت حال میں جنرل مشرف یا اس کا کوئی باوردی جانشین اپنا اقتدار جاری رکھتا لیکن یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ لاقانونیت کی وجہ سے پاکستان کی کیا درگت بنتی اور ہمیں کن سانحات کا سامنا کرنا پڑتا۔

اب ہم ایک دوسرے پہلو کا جائزہ لیتے ہیں کہ این آر او کے بغیر پاکستان کو پرویز مشرف کی گرفت سے نکالا جا سکتا تھا؟ جواب ہے، نہیں! کیونکہ یہ ہماری تاریخ ہے کہ سوائے مشرف کے کون سا آمر تھا جو سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں اقتدار بدر ہوا؟ وطنِ عزیز میں آئین شکنی کے بانی ایوب خان نے پاکستان کی دبوچی گردن تب چھوڑی، جب مسلسل حکمرانی کے بعد اُن کے ماتحتوں نے اُن کے ساتھ ہاتھ کر کے اِقتدار خود سنبھال لیا، 1971ء کا سانحہ نہ ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ یحییٰ خان اپنی آنکھوں میں مزید اِقتدار کی حسرتیں سجائے قوم کے سر سے اُترتے؟ ضیاء الحق جہاز میں جل کر بھسم نہ ہوتے، تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اُن کے ناجائز اقتدار سے اُنھیں باہر کر دیا جاتا؟ مشرف بھی این آر او کر کے محترمہ بینظیر بھٹو کے سیاسی جال میں پھنس کر غلطی نہ کرتے تو کس مائی کے لعل کے بس کی بات تھی کہ اُنھیں بِلا شرکت غیرے حکومت چھوڑنے پر مجبور کر دیتا؟

اب ہم ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا نقطہ نظر دیکھتے ہیں کہ وہ بذاتِ خود این آر او کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

این آر او کے بارے میں ڈکٹیٹر پرویز مشرف خود درجنوں بار اقرار کر چکے ہیں کہ اُن کی سب سے بڑی غلطی این آر او تھا (جس کی وجہ سے اُنھیں مجبوراً اقتدار چھوڑنا پڑا)۔ پرویز مشرف کے اقرار کے بعد این آر او کے بارے میں انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے پیش کیے جانے والے کذب بیانوں کے جھوٹے پروپیگنڈے پر حیرت ہوتی ہے۔ اب تو این آر او کے بارے میں پارلیمنٹ میں سانپ کی طرح لپلپاتی زبان والے لونڈے بے تکان بولتے نظر آتے ہیں، جن کا طرہ امتیاز ہی بے پر کی ہانکنا ہے۔

یہاں اس بات کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی دشمنی میں این آر او کی پھبتیاں کسنے والے این آر او دینے والے آئین شکن پرویز مشرف کا کبھی بھی ذکر نہیں کرتے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر این آر او اُن کی نظر میں غلط تھا تو پھر این آر او دینے والے کا ذکر گول کر کے فقط این آر او لینے والوں کو تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ کیا اِس یکطرفہ طرزِ عمل سے اِن کی اَنلمیٹڈ منافقت عیاں نہیں ہوتی؟

تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اگر ظلم و استبداد کے سامنے سر نہ جھکانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو انتہائی دانشمندی سے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو این آر او کے ذریعے مات نہ دیتیں تو وہ نہ اپنی وردی اُتار کر کمزور ہوتے، نہ مجبور ہو کر اقتدار چھوڑتے اور نہ ہی عوام کے منتخب نمائندے حکومت سنبھالتے بلکہ جنرل مشرف اقتدار کے مزے کشید کرتے رہتے اور راوی چین ہی چین لکھتا رہتا تاوقتیکہ پاکستان کسی بہت بڑے سانحے کا شکار نہ ہو جاتا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے این آر او کی بساط دو بار آئین توڑنے والے ڈکٹیٹر جنرل مشرف پر خوب اُلٹ دی تھی۔ یہ این آر او ہی تھا جس کے تحت بی بی نے جنرل مشرف کی وردی اُتارنے اور جمہوریت کی بحالی کی کھڑکی کھولنے پر مجبور کیا تھا لیکن اُنہیں اپنی جان کی قربانی دینا پڑی تھی۔ ان کی اِس عظیم قربانی کی قیمت پر پاکستان میں جمہوری عبور ممکن ہوئے۔ اِن ناقابلِ تردید حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے برملا کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے اپنی جان قربان کرنے والی ذوالفقار علی بھٹو کی بے نظیر بیٹی قوم کی عظیم محسن ہے اور این آر او کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے والے فقط مقتدرہ قوتوں کے چابی بھرے کھلونے ہیں۔

(ختم شُد)

دو قسطوں پر مشتمل آرٹیکل کی یہ آخری (دوسری) قسط ہے۔ پہلی قسط پڑھنے کے لیے کلک کریں۔