”شہیدمحترمہ بے نظیر بھٹو“ایک ایسا نام ہے جو بول کر یا سن کر خوشی اور دکھ جیسے دونوں جذباتی کیفیت انسان پر طاری ہوتے ہیں۔ مسرت اور خوشی اس لیے کہ سن کر فخر محسوس ہوتا ہے اس بیٹی پر جس نے اپنے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار کے ایوانوں سے لے کر جیل کی کالی کوٹھری تک جاتے دیکھا جنہوں نے کم عمری میں بھٹو صاحب سے سیاست سیکھی خاموشی سے انکے ساتھ رہ کر انکے نظریے کو ان کی سوچ کو اپنے اندر سمو لیا،اور پھر جب بے رحم وقت کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کر دیا گیا تو ایک نہتی، کمزور اور کمسن لڑکی ہو کر بھی کس بہادری دلیری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا۔
1988 میں بینظیر بھٹو کو انسانی حقوق کی خدمات پر ”BRUND KROISKY“ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ 1989 میں لبرل انٹرنیشنل ادارے نے ”ایس فریڈم ایوارڈ “دیا۔آکسفورڈ یونین کی پہلی خاتون پاکستانی سٹوڈنٹ جس نے یہ اعزاز 1976 میں حاصل کیا۔گینیز بک آف دی ورلڈ ریکارڈ 1996 میں بینظیر بھٹو کو دنیا کی پہلی 50 اہم خواتین میں شامل کیا گیا۔بی بی شہید کی سیاست اور انداز سیاست کی بات بھی نرالی تھی وہ آج بھی مقبولیت کے اس درجے پر ہیں جہاں تک پہنچنے میں طویل مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔1988ء کے قومی الیکشن میں شہید عوام ذوالفقار علی بھٹو کی عظیم صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو نے تیر کے انتخابی نشان پر بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ اپنے نام کی،محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں، وہ ایشیا میں بھی خواتین رہنما کے طور پر پاکستان کی پہچان تھیں۔
پاکستان کے پہلے انقلابی رہنماء ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہونے کی وجہ سے ان کی زندگی سیاست کے اتار چڑھاؤ میں گزری اپنی عملی جدوجہد کی وجہ سے ان کو پاکستانی سیاست میں اہم مقام ملا وہ عوامکے دلوں کی دھڑکن بن گئی۔ بے نظیر بھٹو دو بار وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز رہيں مگر بد قسمتی سے دونوں بار ان کو مدت مکمل نہ کرنے دی گئی۔
شہید بھٹو عوام کو طاقت کا سرچشمہ قرار دیا کرتی تھیں ،اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کا ایک روشن جمہوری چہرہ تھیں۔ چاروں صوبوں کی زنجیر کہلانے والی بے نظیر ملک کے ہر حصے میں یکساں مقبول تھیں، محترمہ بے نظیر تہذیبوں کے تصادم کورد کرکے مفاہمت پر یقین رکھتی تھیں۔وہ عوام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ تھیں، وہ سیاست کے میدان میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کی علمبردار تھیں، وہ اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ زندگی چند روز کی ہے، اس لئے ہمیں مثبت سوچ کے ساتھ کچھ اچھا کرنا چاہیے، ہمیں لوگوں کے درمیان فاصلوں کو مٹانا چاہیے اور مثبت اندازِ فکر سے منفی قوتوں کو شکست دینی چاہیے۔
بی بی شہید پاکستان سے غربت و افلاس کا خاتمہ کرکے ملک کو امن و ترقی کا گہوارہ بنانا چاہتی تھی۔وہ اپنے جلسوں میں کہا کرتی تھیں کہ’’میں شہید بھٹو کی بیٹی اپنے شہید بابا اور پاکستان کے عوام سے یہ وعدہ کرتی ہوں کہ برائی کیخلاف اور نیکی کی فتح کے لیے اپنی تمام توانائیاں وقف کردوں گی اور وطن کو مشکلات سے نجات دلانے کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرونگی‘‘ ۔
ملکی سیاست پر بے یقینی کے گہرے بادل چھا گئے تھے، ایک طرف حکومت اور دوسری طرف اپوزیشن اتحاد اپنے ممبران قومی اسمبلی پر خصوصی توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے، ایسے حالات میں جب ایک اہم اتحادی جماعت نے حکومت چھوڑنے کا اعلان کیا تو پیپلز پارٹی حکومت کے خاتمے کی افواہیں زور پکڑ گئیں۔امریکی حکومت کا یہ ذومعنی بیان بھی میڈیا کی زینت بنا کہ پاکستان میں جو بھی حکومت میں آئے گی ، امریکہ اس سے تعاون کرے گا۔
تاہم محترمہ بینظیر بھٹو نے ان تمام کٹھن سیاسی مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو پارلیمانی عمل کا حصہ اور اپوزیشن کا جمہوری حق قرار دیا۔ایسے نازک موڑ پر انکے شوہر ِنامدار آصف علی زرداری ہر سیاسی محاذ پر سب سے آگے نظر آئے، جب صحافیوں نے اپوزیشن کی کامیابی کے امکانات کے حوالے سے سوال کیا تو زرداری صاحب کا یہ بیان اخبارات کی شہ سرخی بنا کہ شرط لگا سکتا ہوں کہ معاملہ برعکس ہوگا۔ اور پھر وقت نے انکی سیاسی بصیرت کو سچ ثابت کر دکھایا جب دو نومبر 1989ء کو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی گئی تو محترمہ بے نظیر بھٹواپنی حکومت بچانے میں کامیاب قرار پائیں۔
بلاشبہ محترمہ بے نظیر بھٹو ایک عالمی سطح کی شخصیت تھیں، انہوں نے یہ اعلیٰ مقام اپنے سیاسی تدبر، جہد مسلسل، انتھک کاوش، دبنگ انداز اور عظیم قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت حاصل کیا۔عالمی برادری بالخصوص امریکہ، یورپ اور مغربی ممالک کے مختلف ادارے اپنی رپورٹس میں محترمہ بینظیر بھٹو کی جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور معیشت کے استحکام کیلئے خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے عالمی ممالک کے دوروں کے دوران وہاں کے مقامی اخبارات ان کیلئے تعریفی کلمات شائع کرتے تھے اور انہیں’’مشرق کی شہزادی‘‘ اور’’آئرن لیڈی‘‘قرار دیکر کر نمایاں کوریج دیتے تھے۔بطور خاتون وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے دور اقتدار میں خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے خصوصی اقدامات کیے۔
فرسٹ وومن بینک اور وومن پولیس سٹیشن کا قیام، کراچی،کوئٹہ، لاہور، پشاور اور اسلام آبادکے 5 اعلیٰ تعلیمی اداروں میں وومن سٹڈی سنٹرز کا قیام، سرکاری ملازمتوں میں خواتین کیلئے 5 فیصد کوٹہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام، خواتین کی ترقی کیلئے وفاقی وزارت کا قیام، لیڈی کمپیوٹر سنٹرز کا قیام اور خواتین کیلئے قرضوں کے اجراء جیسے اقدامات انکی قائدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔آج ہم خود کو آزاد ملک کا شہری سمجھتے ہیں تو اسکا کریڈٹ قائداعظم کی قیادت میں تحریک پاکستان کی کامیابی کو جاتا ہے، پاکستان میں دنیا کے دیگر جدید ممالک کی طرز پر طاقت کا سرچشمہ عوام کو بنانا اورملک کو متفقہ آئین دینے کا اعزاز ذولفقار علی بھٹو کو حاصل ہے تومحترمہ یبنظیر بھٹو کی پارلیمان کی بالادستی اور استحکامِ جمہوریت کیلئے انتھک جدوجہد کسی تعریف کی محتاج نہیں۔محترمہ بینظیر بھٹو کی پارلیمانی سیاست کا محور تحمل، امن اور برداشت کی پالیسی پر مبنی تھا، انہوں نے ناسازگار حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا لیکن کبھی ریاست اور ریاستی اداروں کو نقصان پہچانے کا سوچا بھی نہیں۔
انکی لیاقت باغ راولپنڈی میں عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے سامنے آخری تقریرنے قوم کو ایک نیا عزم و حوصلہ عطاء کیا تھا، بے نظیر بھٹو کی المناک شہادت سے پاکستان ایک عظیم راہنما سے محروم ہو گیا۔یہ بلاشبہ ایک ناقابل تلافی قومی سانحہ تھا، جسکا سب سے بڑا نقصان پاکستان کوپہنچا، وہ وفاق پاکستان کی علامت اور عوام کی امنگوں کا مظہر تھیں، انکی شہادت پر ہر پاکستانی نے آنسو بہائے اور رنج و غم کا اظہار کیا۔” آج شہید رانی ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن انکاپرامن سیاسی ویژن ہمیشہ پاکستان کی سیاست میں برداشت، رواداری اور مفاہمت کی اہمیت اجاگر کرتا رہے گا“۔