'بے نظیر کی شہادت سے ملک میں سیاسی خلا پیدا ہوا جس سے پاپولسٹ سیاست کو فروغ ملا'

'بے نظیر کی شہادت سے ملک میں سیاسی خلا پیدا ہوا جس سے پاپولسٹ سیاست کو فروغ ملا'
بے نظیر بھٹو مزاحمت اور جمہوریت کا نمونہ بن کر ابھری تھیں۔ ان کی شہادت نے پیپلزپارٹی اور پاکستان دونوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ ان کی شہادت کی وجہ سے پاکستان میں ایک خلا پیدا ہوا جس کی وجہ سے پاپولزم کو فروغ ملا اور ان کے جانے کی وجہ سے اس طرح کی سیاست سامنے آئی۔ پیپلزپارٹی ان کی شہادت کی وجہ سے ایک کرشماتی لیڈرشپ سے محروم ہو گئی اور اس کے ساتھ پیپلزپارٹی مڈل کلاس سے دور ہو گئی۔ یہ کہنا ہے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیغم خان کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر بے نظیر آج زندہ ہوتیں تو ایک پاپولسٹ اور فاشسٹ پارٹی معرض وجود میں ہی نہ آتی۔ قوموں کو مثالی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ فاطمہ جناح کے بعد ایک مثالی قیادت تھی۔ وہ مفاہمت کی بات کرتی تھیں۔ اپنے پہلے دور حکومت میں انہوں نے قوم کو جمہوریت کے پلیٹ فارم پہ اکٹھا کیا، اس وقت ملک میں ڈر تھا، خوف تھا اور ضیا کے دور کے کوڑے اور سزائیں تھیں۔ بھٹو صاحب کی بنائی ہوئی پارٹی کو ضیا نے توڑ دیا تھا۔ جتوئی اور کھر نے نیشنل پیپلزپارٹی بنا لی تھی۔ ان کی والدہ اپنے بیٹے کو پارٹی دینا چاہتی تھی۔ بی بی نے جو پارٹی بنائی وہ پیپلزپارٹی کا ایک نیا جنم تھا۔ مشرف دور میں انہوں نے صلح اور مفاہمت پر زور دیا مگر اس پالیسی کا غلط استعمال کیا گیا اور مشرف نے بھی اس کو غلط استعمال کیا۔ میثاق جمہوریت میں ان کا کلیدی کردار تھا۔ انہوں نے ایک ایسا میثاق بنایا کہ جس میں انہوں نے بتایا کہ آئینی حساب سے کیسے مفاہمت کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ اگر محترمہ زندہ ہوتیں تو وہ عمران خان کو بھی میثاق جمہوریت میں لے کر آ جاتیں۔

ضیغم خان نے کہا کہ پاکستان کی پالیسی میں ایک یکجہتی آئی ہے کہ دہشتگردی کو پھر سے پنپنے نہیں دینا۔ افسوس ہے کہ سیاسی لوگوں نے سارا کچھ اداورں کے پلے ڈال دیا ہے اور اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کو نہیں نبھا رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2013 کے الیکشن میں پی پی پی اور اے این پی کو الیکشن کی کمپین کی اجازت نہیں تھی جبکہ عمران خان کو کھلی اجازت تھی اس لیے ان کے مخالفین ہار گئے اور وہ جیت گئے۔ دہشت گردی پاکستان کا اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مگر جب آج کے دہشت گردی کے مسائل جنم لے رہے تھے تو اس وقت سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کر رہی تھی جبکہ سیاسی ان پٹ نہیں تھی اور اس وقت کی صوبائی حکومت کی طرف سے بھی معاملات کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بی بی شہید کا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ایک بہت بڑا حصہ ہے۔

پڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا کہ بے نظیربھٹو نے اتنی بڑی ٹریجڈی کو سہا اور انتہائی ناسازگار ماحول میں بھی خود کو سرگرم رکھا، وہ بھی اس دور میں جب ان کے والد کے دشمن موجود تھے۔ انہوں نے بطور وزیراعظم اپنے باپ کے قاتلوں کی موجودگی میں اپنے فرائض منصبی سرانجام دیے۔ یہ انتہائی مشکل کام ہے کہ اپنے کام کو جاری رکھنا اور یہ ان کی زندگی کا سب سے تابناک پہلو ہے۔ انہوں نے مفاہمت کے پرچم کو اٹھایا اور ذاتی چیزوں کو پیچھے چھوڑ کر ایک بڑے مشن کو آگے رکھا۔ جب ان کے مخالفین نے ان کے بارے میں گھٹیا زبان کے استعمال کا مظاہرہ کیا، اس کے باوجود انہوں نے اپنے شاندار رویے کو ترک نہیں کیا۔ آج کے دور کی زبان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاست بہت تنزلی کی طرف گئی ہے۔ شیخ رشید کی انتہائی گھٹیا زبان کو بھی برداشت کرتی رہیں۔ آج کی سیاست کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 1997 میں 18 سیٹوں کے ساتھ بھی اپنا جمہوری فریضہ نبھایا۔ جب وہ اتنی چھوٹی پارٹی کی قیادت کر رہی تھیں تو انہوں نے ثابت کیا کہ بڑی پارٹی کی لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک چھوٹی پارٹی کی لیڈر رہ کر بھی اپنا کام کر سکتی ہیں۔ ہمیں ایسی شاندار مثال کے لیے بیرون ملکوں کی مثالوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمارے پاس بے نظیر ہے۔ بے نظیر دانشوری میں بھی کمال تھی۔ وہ ہر سظح کے ذہنی شعور کے لوگوں سے بات کرتی تھی۔ بے نظیر ایک ایسی سیاسی شخصیت تھی کہ وہ خواتین کے لیے بھی بہت بڑی مثال ہیں۔ ان کے خلاف بہت باتیں کی گئیں مگر وہ ہمیشہ پر اعتماد رہیں اور لوگوں سے اپنا آپ منوایا۔

احمد بلال محبوب نے کہا کہ اگر بی بی جیسی شخصیت آج موجود ہوتیں تو موجودہ دور کے فاشسٹ رجحان رکھنے والے عناصر اتنے سرگرم نہ ہوتے۔ آج کے دور میں بہت زیادی سیاسی تلخی ہے۔ آج کے سیاست دانوں کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مدد نہ ملنے کا دکھ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا بے نظیر کے ساتھ ایک ٹارگٹڈ ظلم تھا۔ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات اس لیے ہوئے کہ بے نظیر حکومت میں نہ آئیں۔ 1988 میں جے یو آئی ان کو روکنے کے لیے بنائی گئی۔ 1990 میں ان کے مخالفین میں پیسے بانٹے گئے۔اس مقصد کے لیے ایک بینک کے مالک سے پیسے لیے گئے۔ اتنا منظم ظلم اسٹیبلشمنٹ نے ان کے خلاف کیا مگر کبھی ان میں وہ تلخی نظر نہیں آئی۔ اس وقت پاکستان میں سیاسی تقسیم اور عدم استحکم کا دور ہے۔ ایک پارٹی کو لیا گیا، تیار کیا گیا، منتخب کروایا گیا جبکہ باقی پارٹیوں کو دبایا گیا۔ اب جب 'انہوں' نے کہا کہ اب وہ ایسا نہیں کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ پھر سے بے نظیر جیسی قیدت کی امید کی جا سکتی ہے۔

میزبان مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ بے نظیر کی شہادت سے ان کی پارٹی کو بہت نقصان پہنچا۔ انہوں نے مشکل حالات میں پارٹی کی صدارت سنبھالی۔ اس دور میں بہت سارے سیاسی گدھ تھے جو چاہتے تھے کہ پارٹی پر قبضہ کریں، وہ ان سے بھی نمٹیں۔ انہوں نے نواز شریف کو بھی قائل کیا کہ وہ بھی ملک میں واپس آئیں اور الیکشن لڑیں۔ یہ ایک جمہوری لیڈر کا رویہ تھا۔ 90 کی دہائی میں بہت منفی سیاست ہوئی اس کے باوجود محترمہ نے ایک سیاسی کلچر متعارف کروایا۔ نواز شریف ان کی شہادت پر ہسپتال پہنچے اور کارکنوں کو حوصلہ دیا۔ آج کل جس قسم کا گھٹیا سیاسی کلچر چل رہا ہے اورسوشل میڈیا پر جس قسم کی زبان استعمال کی جاتی ہے، وہ سب آپ کے سامنے ہے۔

پروگرام کے میزبان مرتضی سولنگی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔