پاکستان کی سیاست بہت دلچسپ ہوتی جا رہی ہے۔ کئی دنوں سے پاکستانی سیاست میں دو رنگی اب بڑھ کر ست رنگی سی دکھائی دینے لگی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو اتحادیوں سے کم اور اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے جس کا خان صاحب کو بھی بخوبی اندازہ ہے۔ وفاقی بجٹ تو منظور ہونا ہی تھا اور کیوں، یہ شیخ رشید صاحب نے اپنے اس بیانیہ میں بتا دیا ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے:
’ عمران خان وقت کی ضرورت ہے، پاک فوج، پاک فوج کے ادارے جمہوریت کے لئے، سربلندی کے لئے اس سسٹم کے ساتھ کھڑے ہیں‘۔ یہ سب کے علم میں تھا۔ کچھ دن قبل حزب اختلاف کے ایک مرکزی رہنما سے بات ہوئی تو خوش گوار حیرت ہوئی۔ ان کے مطابق بجٹ تو ہر صورت منظور ہونا ہی تھا اس میں کوئی دو رائے نہیں۔
لیکن عوام کے سامنے بجٹ مخالف پھلجھڑیاں چھوڑنے کا پھر کیا فائدہ؟
بہتر تھا موصوف اپنے بیانیے کی حمایت کرنے کے لئے ایوان نہ جاتے، غیر حاظری کم از کم عوام کا آپ پر یقین تو پختہ کرتی، آپ کی سیاسی اہمیت بڑھاتی، اس پر انہوں نے مجھے جواب دیا کہ
’بجٹ منطوری سال کا ایک ایسا وقت ہوتا ہے جس میں شادی میں روٹھی ہوئی پھپھی بھی بے شک ناراض ہو مگر شرکت ضرور کرتی ہے۔‘‘
اب اسے روٹھی ہوئی پھپھو کے شادی میں شرکت کا شوق کہیں یا پھر اپنے بھائیوں کی جانب سے پھپھو کی چوری چھپے تیاری مکمل کرا دینے کے بعد کا فریضہ کہیں، ان کی مجبوری سمجھ میں آ رہی تھی۔ ایوان میں موجودگی، اور پھر پارلیمان میں غیر مناسب گفتگو اور گرما گرمی بھی اسی بات کی عکاس ہے کہ سب کتنے مجبور ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کا بجٹ منظور ہونے نے یہ تو بتا دیا کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان تحریک انصاف سے ناراض نہیں ہے، اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے گورننس کے طریقے اور پنجاب میں وزیر اعلیٰ بزدار کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے مطمئن نہیں ہے۔ اس سال کا وفاقی بجٹ اپنے ہنی مون سال کے بجٹ سے کافی مختلف دکھائی دیا اور وہ اس طرح کہ خان صاحب کی باڈی لینگویج میں لچک، اپنی پارٹی کے تمام پارلیمنٹیرینز سے جا کر حال احوال پوچھنا، بجٹ سے ایک رات قبل پاکستان تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے لئے عشائیہ رکھنا اور اپنی ہی پارٹی کے ایم این ایز کے کافی گلے شکوے سننا۔ اس سے برھ کر یہ کہ چوہدری شجاعت حسین جو سب سے اہم اتحادی جماعت کے سربراہ ہیں نے نہ صرف عشائیے میں شرکت سے انکار کر دیا بلکہ اس کے مقابلے پر اپنا عشائیہ کا انعقاد کیا۔
خان صاحب نے اتحادیوں کو کافی یقین دلانے کی کوشش کی بھر بھی پی ایم ایل ق اور بی این پی نے جواب میں کہا:
’’ہمارا تمہارا کھانے کا نہیں، صرف ایک ووٹ کا رشتہ ہے، وہ ہم آپ ہی کو دیں گے‘‘۔
یہ کافی سخت ردعمل تھا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کا رشتہ بہت کمزور ہو گیا ہے؟ کیا پاکستان تحریک انصاف اپنے روٹھوں کو منا پائے گی؟ کیا حکومت اتحادی جماعتوں کے مطالبات پورے کر پائے گی؟ اب پاکستان تحریک انصاف میں کون جہانگیر خان ترین کو رول ادا کرے گا؟
فواد چودھری کے تہلکہ خیز بیان، ایم این ایز کی ناراضگی، غیر منتخب شدہ خصوصی مشیران اورمعاونین کے خلاف شکایات نے تجسس پیدا کر دیا، اس بیان کہ بعد میں نے تحریک انصاف کے دیگر مرکزی رہنماؤں کو فون کیا، ان میں سے دو رہنماؤں سے میری بات ہوئی جو اس وقت اسمبلی کا حصہ بھی ہیں۔ انہوں نے خدشات ظاہر کیے کہ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ سینیٹ کے ممبران مستقبل میں عوامی سیاست کو نہیں دیکھتے، مسلئہ ان کو درپیش ہے جنہوں نے اگلے الیکشن میں پھر ووٹ مانگنے جانا ہے، حلقے میں لوگوں کو فیس کرنا ہے۔
مائنس ون کی باتیں بھی کل قومی اسمبلی میں گونجتی رہیں۔ خان صاحب کی طرف سے آنے والا بیان فیصل واؤڈا صاحب کے بیان پر مہر لگاتا ہے کہ کابینہ میں وزیر اعظم کی کرسی کے بہت امیدوار بیٹھے ہیں۔ ہمارے ملک میں مائنس ون فارمولا کافی دہائیوں سے چلا آ رہا ہے۔ مائنس ون کا فارمولا وقت کے وزیر اعظم کو ڈمپ کونے کے لئے استعمال ہوتا ہے، اور یہ اسی وقت ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اور اسٹیبلشمنٹ کے رشتے میں اونچ نیچ چل رہی ہوتی ہے۔ مائنس ون کی تاریخ بہت دلچسپ رہی ہے۔ لیکن کل عمران خان ایسا محسوس ہوا کہ حریف جماعت کا صرف نام تھا، سنا کسی اور کو رہے تھے۔
یہ میسج کیا رنگ دکھاتا ہے، پاکستان تحریک انصاف کا سیاسی مستقبل کیا ہوتا ہے، یہ آنے والے چند دن ہی فیصلہ کریں گے۔ کیا سیاسی طوفان تھم گیا ہے؟ یا یہ کوئی نئی شروعات ہے؟ یہاں مجھے ایک تاریخی جملہ یاد آ گیا ہے۔ یہ میرے سامنے کی بات ہے جب چوہدری شجاعت نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ
’’یہی حالات رہے پاکستان میں، تو تین چھ مہینے میں کوئی وزیر اعظم نہیں بننا چاہے گا‘‘۔
مصنفہ سما نیوز پر پروڈیوسر ہیں، اور اس سے قبل مختلف صحافتی اداروں کے ساتھ منسلک رہ چکی ہیں۔