بجٹ دستاویز کے مطابق مالی سال 21-2020 کے وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 71.4 کھرب روپے تجویز کیا گیا ہے جو گذشتہ مالی سال 20-2019 کے مقابلے میں 11 فیصد کم ہے۔ کُل آمدن (ریونیو) کا تخمینہ 6 ہزار 573 ارب روپے ہے جس میں ایف بی آر ریونیو 4 ہزار 963 روپے ہے اور نان ٹیکس ریونیو ایک ہزار 610 ارب روپے ہے۔
صوبوں اور وفاق کے اخراجات
این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 2 ہزار 874 ارب روپے کا ریونیو منتقل کیا جائے گا۔ نیٹ وفاقی آمدن کا تخمینہ 3700 ارب روپے ہے۔ کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 137 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اس طرح بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے تک رہنے کی توقع ہے جو جی ڈی پی کا 7 فیصد بنتا ہے۔
وفاق کا ترقیاتی بجٹ 792 ارب روپے مختص کیا گیا ہے جب کہ وفاقی وزارتوں کا کل بجٹ 476 ارب روپے ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے لئے 55 ارب جب کہ گلگت بلتستان کے لئے 32 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سابقہ فاٹا کے لئے 56 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی ترقیاتی منصوبوں کے لئے 1324 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
قرضہ جات کی ادائیگی
قرضوں کی ادائیگی اور ان پر ادا ہونے والے سود کی مد میں 2946 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ گذشتہ روز جاری ہونے والے Economic Survey 2020 میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے کل قرضہ جات اس وقت جی ڈی پی کا 88 فیصد ہیں جب کہ قانونی طور پر یہ زیادہ سے زیادہ 60 فیصد تک ہو سکتے ہیں۔
محصولات و ترسیلات
بجٹ دستاویز کے مطابق بیرونی وسائل سے 810 ارب روپے آمدنی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے دوران براہ راست ٹیکسوں سے 2 ہزار 43 ارب روپے آمدن کا تخمینہ ہے، آئندہ مالی سال کے دوران بالواسطہ ٹیکسوں سے 2 ہزار 920 ارب روپے آمدن کا تخمینہ دیا گیا ہے۔ ترسیلات کو بڑھانے کے لئے اقدامات کی غرض سے 25 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
کس شعبے کے لئے کتنی رقم مختص کی گئی؟
بجٹ میں مختلف شعبہ جات کے لئے رکھی گئی رقم کچھ یوں ہے۔
کرونا وائرس پیکج
مجموعی طورپر کرونا وائرس کے حوالے سے 875 ارب روپے کی رقم وفاقی بجٹ میں رکھی گئی ہے۔ طبی آلات کی خریداری کے لئے 71 ارب، غریب خاندانوں کے لئے 150 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ایمرجنسی فنڈ کے لئے 100 ارب مختص کیے گئے ہیں۔ کرونا صورتحال میں خصوصی ترقیاتی بجٹ کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سی پیک سے متعلق پروجیکٹس کے لئے 118 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بجلی کی ترسیل کے لئے 80 رب روپے مقرر کیے گئے ہیں۔
دفاع
بجٹ میں دفاع کے لئے 12 کھرب 89 ارب روپے رکھے گئے ہیں اور اسے کفایت شعاری سے تعبیر کیا گیا ہے۔
خوراک کا تحفظ
اس کے لئے 12 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ صحت کے لئے 75 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے اسپتالوں کے لئے 13 ارب روپے جب کہ ٹڈی دل کے سد باب کے لئے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
احساس، کامیاب جوان، نیا پاکستان ہاؤسنگ پرجیکٹ
احساس پروگرام کے لئے پچھلے سال 187 ارب روپے رکھے گئے تھے جسے بڑھا کر 208 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ کامیاب جوان پروگرام کے لئے دو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ پرجیکٹ کی مد میں 1.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے لئے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یوٹیلٹی سٹورز کے لئے 50 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ای گورنمنٹ کے لئے ایک ارب روپے اور دہاڑی دار طبقے کے لئے 200 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
سبسڈیز اور ڈیوٹیز
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ توانائی، خوراک اور مختلف شعبوں کو مختلف اقسام کی سبسڈیز دینے کے لئے 180 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ تمباکو اور سگریٹس کی درآمد کے لئے ڈیوٹی کو 100 فیصد کر دیا گیا ہے۔ کرونا کی ٹیسٹنگ سے متعلق آلات کی درآمد پر ڈیوٹی مکمل طور پر ختم کر دی گئی ہے۔ مقامی صنعت کے لئے درآمدی اشیا پر ڈیوٹی کو 12 فیصد سے کم کر کے 6 فیصد کر دیا گیا ہے۔ توانائی اور خوراک کے شعبوں میں سبسڈیز کا اعلان کیا گیا ہے۔
تعلیم
تعلیم کے شعبے کے لئے 30 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس میں سے ترقیاتی بجٹ محض 5 ارب روپے ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) منصوبوں کے لئے 20 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔
اعلیٰ تعلیم کے لئے 64 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں سے ترقیاتی بجٹ 35 ارب روپے ہے۔
فنکاروں کی مالی امداد کے لئے آرٹسٹ پروٹیکشن فنڈ 25 کروڑ سے بڑھا کر 1 ارب کر دیا گیا ہے، عوام کو سستی پبلک ٹرانسپورٹ کی فراہمی کے لئے ریلوے کے لئے 40 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پبلک سیکٹر ڈویلمپنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لئے 650 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، دیامر بھاشا، مہمند ڈیم کے لئے وسائی بھی شامل ہوں گے۔ سوشل ڈیویلپمنٹ سیکٹر شعبے کے لئے 250 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
مواصالات و آبی وسائل
مواصلات کے دیگرمنصوبوں کے لئے 37 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ آبی وسائل کے لئے مجموعی طور پر 69 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
حکومتی تخمینے اور آنے والے مالی سال کے لئے اہداف
مالی سال 2020-21 کے لئے حکومت نے جی ڈی پی کا ہدف 2.1 فیصد تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ ٹیکس کلکشن کا ہدف 3900 ارب روپے اور نان ٹیکس آمدن کا ہدف 1600 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں بنی نجکاری ٹاسک فورس نے 45 اداروں کی نجکاری کی تجویز دی ہے۔