پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے ’گھریلو تشدد بل‘ کی مخالفت کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا

پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے ’گھریلو تشدد بل‘ کی مخالفت کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا
پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے گھریلو تشدد بل مسترد کردیا ہے۔ جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) سمیت تمام مذہبی جماعتوں نے اس بل کو پاکستان کے خاندانی نظام ، کلچر اور مذہب مخالف قرار دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئے قومی اسمبلی اور سینٹ سے بل اکثریت رائے سے منظور کر لئے گئے ہیں جس کے تحت گھر کے کسی بھی فرد کو ذہبی، جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جاسکے گا بلکہ کسی بھی قسم کا تشدد جرم قرار دیا جائے گا۔

جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مشتاق احمد اور عطالدین رحمان نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔ انکا کہنا ہے کہ یہ بل پاکستان کی ثقافت، مذہب اور کلچر کے خلاف ہے جس کا مقصد یہاں کے خاندانی نظام کو تباہ کرنا ہے۔

اس سے قبل بہت سے مذہبی سکالرز اور علما بھی اس بل کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ علماء نے اس بل کو اسلام کے متصادم قرار دینا شروع کر دیا ہے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ انسداد گھریلو تشدد قانون نہ صرف خاندانوں کو مضبوط کرے گا بلکہ یہ خواتین، بچوں، بزرگوں اور ذہنی طور پر معذور افراد کو تحفظ دے گا، اس قانون میں ایسی کوئی شق نہیں جو ہمارے دین کے خلاف ہو یا جس سے خاندانی نظام خراب ہونے کا امکان ہو، یہ قانون خواتین اور مردوں پر یکساں لاگو ہو گا اور جرائم کے مطابق لوگوں کو سزائیں دی جائیں گی۔

اتوار کو نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قانون پہلے ہی خیبرپختونخوا، پنجاب اور سندھ تین صوبوں میں لاگو ہو چکا ہے، اگر کوئی خامیاں تھیں تو پہلے کیوں اعتراض نہیں اٹھائے گئے تاہم اس کے باوجود اگر بل میں کوئی خامیاں پائی گئیں تو انہیں دور کر لیا جائے گا۔

ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ یہ کہنا کہ قانون جلد بازی میں پاس ہوا ہے غلط ہے، 9 مہینے یہ بل قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کمیٹی میں تھا جہاں پر تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی تھی، پھر سینیٹ میں بھی کافی مہینے تک پڑا رہا اور اس کی ایک ایک لائن پر بحث ہوئی تب یہ پاس ہوا، رضاربانی کی 8 سے 10 ترامیم منظور کی گئی ہیں اسلئے اب یہ بل دوبارہ حتمی منظوری کیلئے قومی اسمبلی میں جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر کسی گھر سے یا ہمسائے کی طرف سے بچوں یا خواتین پر تشدد کے حوالے سے کوئی شکایت آئی تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی، جس کے ساتھ بھی ظلم ہو گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت اسے تحفظ دیا جائے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں اپنے معاشرے سے تشدد کی سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، میں سمجھتی ہوں کہ اس قانون سے خاندانی نظام مضبوط ہو گا اور تمام لوگ آپس میں پیار اور محبت کے ساتھ رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ انسداد گھریلو تشدد قانون کے تحت تمام لوگوں کو حق حاصل ہو گا کہ وہ اپنے اوپر کئے جانے والے تشدد کے خلاف آواز اٹھا سکیں اور عدالت سے رجوع کر سکیں، عدالتیں قانون کے مطابق فیصلہ کریں گی، یہ قانون کوئی مذاق نہیں کہ کوئی بھی شخص سڑک سے اٹھ کر آ جائے کہ مجھ پر تشدد کیا جا رہا ہے اسے اپنے اوپر کئے گئے تشدد کے حوالے سے شواہد عدالت میں پیش کرنے پڑیں گے۔