قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا کمسن گھریلو ملازمہ پر وحشیانہ تشدد کے واقعے کا نوٹس

پرنسپل جنرل ہسپتال لاہور پروفیسر الفرید ظفر نے بتایا کہ میڈیکل رپورٹ آنے کے بعد سول جج کی اہلیہ پر درج مقدمے میں اقدام قتل اور جسم کے بیشتر اعضا کی ہڈیوں کو توڑنے کی دفعات شامل کرلی گئیں۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا کمسن گھریلو ملازمہ پر وحشیانہ تشدد کے واقعے کا نوٹس

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے سول جج کی اہلیہ کی جانب سے رضوانہ نامی کم عمر گھریلو ملازمہ پر وحشیانہ تشدد کا نوٹس لے لیا۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس بدھ کو طلب کیا گیا ہے۔

دوسری جانب لاہور کے جنرل ہسپتال میں زیر علاج تشدد کا شکار گھریلو ملازمہ رضوانہ کی حالت بدستور تشویشناک ہے۔ پرنسپل جنرل ہسپتال لاہور پروفیسر الفرید ظفر نے بتایا کہ رضوانہ کی طبعیت صبح چاربجے سے خراب ہے۔ گزشتہ روز رضوانہ کی طبیعت بہت بہترتھی تاہم میڈیکل بورڈ طبیعت بگڑنے کا جائزہ لے گا۔رضوانہ کے پلیٹ لیٹس بارہ ہزار سے بڑھ کرچوبیس ہزارہو گئے ہیں۔

پروفیسر سردار الفرید کا کہنا تھا کہ بچی کا آکسیجن لیول پھر خراب ہو رہا ہے۔ بچی کا آج آکسیجن لیول ٹھیک کرنے کیلئے برونکو سکوپی کی گئی جبکہ آج فزیوتھراپی بھی کی گئی ہے۔ علاج کیلئےسائیکالوجیسٹ ،کارڈیالوجسٹ ٹیم بھی معائنہ کررہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ میڈیکل رپورٹ آنے کے بعد سول جج کی اہلیہ پر درج مقدمے میں اقدام قتل اور جسم کے بیشتر اعضا کی ہڈیوں کو توڑنے کی دفعات شامل کرلی گئیں۔

اس سے قبل رکن قومی اسمبلی (ایم این اے) مہناز اکبر عزیز نے سول جج کی اہلیہ کی جانب سے رضوانہ نامی کم عمر گھریلو ملازمہ پر وحشیانہ تشدد کے واقعے کی شدید مذمت کی تھی۔

مہناز اکبر عزیز نے اس ہولناک واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چھ سال سے کم عمر کے بچے امیر لوگوں کے بنگلوں میں گھریلو ملازم کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نامور خاندانوں کے لوگوں کا گھر میں گھریلو ملازم کے طور پر بچوں کی خدمات حاصل کرنے میں اہم کردار ہوتا ہے۔

انہوں نے معصوم کم عمر گھریلو ملازمین کے خلاف وحشیانہ تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا۔

ایم این اے مہناز اکبر نے کہا کہ انہوں نے نومبر 2002 میں گھریلو ملازمین کے تحفظ کا بل پیش کیا تھا جسے قومی اسمبلی میں منظور کیا گیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات کی حوصلہ شکنی اور مذمت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ رضوانہ کیس کے ملزمان سول جج اور ان کی اہلیہ کو جلد از جلد سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں کوئی بھی 16 سال سے کم عمر کے گھریلو ملازم کو ملازمت پر نہیں رکھ سکتا۔

انہوں نے ادارے پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر ڈومیسٹک ورکرز پروٹیکشن بل کے رولز کو پاس کرے تاکہ رضوانہ کیس جیسے واقعات کو روکا جا سکے۔

واضح رہے کہ 24 جولائی کو تشدد کی شکار 14 سالہ بچی رضوانہ کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ بچی کی ماں نے جج کی اہلیہ پر تشدد کا الزام لگایا تھا۔ جب بچی کو اسپتال پہنچایا گیا تو اس کے سر کے زخم میں کیڑے پڑ چکے تھے اور دونوں بازو ٹوٹے ہوئے تھے اور وہ خوف زدہ تھی۔

نجی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں سول جج عاصم حفیظ نے اپنی اہلیہ کے نفسیاتی مسائل کا یہ کہہ کر اعتراف کیا کہ وہ سخت مزاج ضرور تھیں۔ پر ان کی بیوی نے انہیں بتایا ہے کہ کبھی مارپیٹ نہیں کی۔ گھر سے جاتے وقت بچی کی حالت ایسی نہیں تھی جیسی دکھائی گئی ہے۔