پاکستانی معاشرے میں کچھ اصول ایسے ہیں جو شاید ہمیں کسی نے نہیں دیے بلکہ خود ساختہ اور بے بنیاد ہیں۔ جیسا کہ کسی بھی خاتون کا کیریئر اس کی شادی کا فیصلہ کچھ ہی وقت میں کر سکتا ہے۔
آپ کو شاید یہ لائن پڑھ کر حیرانی ہوئی ہو گی کہ کیسے؟ ایک بات جو ہم اکثر سنتے ہیں کہ پتہ نہیں کوئی کسی بھی خاتون کو اجازت دے یا نہ دے کہ وہ مزید کامیابی کی سیڑھیاں چڑھ پائے گی یا نہیں۔ کوئی بھی شخص کیسے یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ دوسرا شخص زندگی میں کیا کرے گا اور کیا نہیں، کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی کسی بھی دوسرے کی محنت اور کن کن راستوں سے وہ سفر کرتا ہوا گزرا ہے اس کا تعین نہیں کر سکتے۔
ایک باپ جو اپنی بیٹی کی پڑھائی پر اپنا سب کچھ لگا کر اسے کچھ بنانا چاہتا ہے تو یاد رہے کہ یہ حوصلہ بھی بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ یہاں جو حوصلہ کر لیتا ہے اسے پہلے تو معاشرہ جینے نہیں دیتا اور جب وہ اپنی جمع پونجی لگا کر، پیسہ، وقت، جذبات اور ہر طرح کی سہولت فراہم کر کے اسے کسی قابل بنا ہی لیتا ہے تو ظالم سماج ایک ہی شرط لیے آ کھڑا ہوتا ہے کہ ہمارے گھر کے کاموں کے علاوہ کوئی کام نہیں ہو سکتا اور یہ کہہ کر اس باپ اور اس لڑکی کے سارے خواب توڑ دیتا ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں؟
پہلے تو معاشرے کے دھکے، یعنی گاڑی کی سہولت نہیں ہے تو لوکل ٹرانسپورٹ پر سفر کر کے تعلیم مکمل کرنا، پھر ساتھ میں بڑے خوابوں کا بوجھ لیے نکلنا اور پھر ان کو کچلے جاتے ہوئے دیکھنا، کیا یہ سب آسان ہے؟ جو لوگ جیتے ہی محض اپنے خوابوں کے لیے ہیں ان کے لیے کیا زندگی رہ جاتی ہو گی؟
دوسرا پہلو یہ کہ کوئی اگر یہ چاہتا بھی ہے کہ اس کی اہلیہ کام نا کرے تو یہ کوئی بری بات نہیں لیکن اس بات کو پہلے بتانا لازمی ہونا چاہئیے تا کہ کسی کو خوابوں کا خسارہ نا برداشت کرنا پڑے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو پہلے جھوٹ کی بنیاد پہ بڑے بڑے خواب دکھاتے دیکھا تو تعجب ہوا کہ کیسے کسی جیتے جاگتے انسان کو بے وقوف بنا کر راستہ بنانے میں ہم فخر محسوس کرتے ہیں جبکہ ہمیں شرم سے ڈوب مرنا چاہئیے۔ آخر کب تک خوابوں کا بیوپار ہوتا رہے گا اور اسے کمپرومائز کا نام دیا جاتا رہے گا؟ کوئی تو ہو جو عورت کے خوابوں کا محافظ ہو!