1968-69 کی سیاست میں عام لوگوں کی شمولیت سے پیپلزپارٹی نے جنم لیا اور سیاست محلات سے نکل کر تھڑوں پر آگئی۔ پیپلزپارٹی کے ایسے امیدوار بھی انتخابی میدان میں اترے جن کے پاس سائیکل بھی نہیں تھا اور انہوں نے عوامی طاقت سے بڑے بڑے سیاسی برج الٹا دیے تھے۔ مزدوروں، کسانوں، ہاریوں اور پسے طبقات نے جاگیرداروں، سرمایہ داروں، رسہ گیروں کی رعونت، دولت اور جاہ وجلال کا غرور خاک میں ملا کرعملی ثبوت دیا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔
تاریخ نے پلٹا کھایا اور سیاست ایک بار پھر سرمایہ داروں، نودولتیوں، رسہ گیروں کے نرغے میں ہے۔ پیپلزپارٹی پر زرداری کی سوچ غالب ہے۔ دوسری کوئی عوام کی نمائندہ جماعت موجود نہیں ہے۔ انتخابی سیاست دھونس و دھاندلی اور سرمایے کے بل بوتے پر کی جاتی ہے۔ کسان، ہاری، مزدور اور عام آدمی انتخابی سیاست میں اترنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ تاریخ تو پلٹتی ہے۔ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ پاکستان کی زندہ تاریخ میں عوام نے وہ مناظر بھی دیکھے جب ہاکر، ہاری، کسان اور مزدور پارلیمان میں پہنچے اور گذشتہ چالیس سال سے عوامی سیاست کا گلا گھونٹ کر رسہ گیروں، سرمایہ داروں اور پراپرٹی ڈیلروں سے سجائی جانے والی پارلیمان کے کرتب بھی دیکھے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔
تحریک انصاف کی موجودہ حکومت میں عمران خان وزیراعظم کی بجائے ریاست اور عوام کے درمیان مڈل مین کا کر دار نبھا رہے ہیں، یعنی انہیں جو کرادر دیا گیا ہے۔ اس سے آگے وہ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں، یہ امر تو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے لئے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو زیر کیا گیا۔ جوڑ توڑ کر کے حکومت دی گئی۔
1967 میں پیپلز پارٹی محلاتی سازشوں اور جوڑ توڑ کی سیاست کے خلاف معرض وجود میں آئی اور عام عوام کی آواز بنی۔ عوام پھر 1967 والی صورتحال سے دوچار ہیں۔ سیاسی فورسز ریاستی جبر کے آگے بے بس ہیں۔ عوام کی حمایت سے محروم ہیں۔ قیادت کا شدید تر فقدان ہے۔ سیاسی اشرافیہ سمیت ریاستی مقتدرہ کے چہروں سے بھی نقاب اتر چکے ہیں۔ گٹھ جوڑ عوام کے سامنے بے نقاب ہوچکا ہے۔ عوام کی نچلی پرتوں میں یہ حقیقت کھل چکی ہے کہ سب ایک ہی سکے کے رخ ہیں۔ ملک و قوم کا خیرخواہ کوئی نہیں ہے۔ تاریخ پھر پلٹا کھا رہی ہے۔ محروم و مظلوم طبقات نے چلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
دنیا کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے معذور افراد نے اپنی سیاسی جماعت مساوات پارٹی (MP) کا علم بلند کر دیا ہے۔ اس تاریخی عمل میں ملک کے کونے کونے سے معذور افراد خود بخود پارٹی کی تعمیر میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ممبر سازی کر رہے ہیں۔ پارٹی کی تنظیمیں بنا رہے ہیں۔ صرف پانچ دن میں مساوات پارٹی (MP) کے یونٹس پاکستان کے چاروں صوبوں سمیت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بن گئے ہیں۔ مساوات پارٹی وویمن ونگ پوری طرح فعال ہوچکا ہے۔ مساوات پارٹی وویمن ونگ کی صدر محترمہ زرغونہ ودود جن کا تعلق کوئٹہ بلوچستان سے ہے، بڑی تیزی سے ملک بھر میں پارٹی کے یونٹس بنا رہی ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں واصف اسلام، نعمان الیاس اور ان کے ساتھی، کے پی کے میں افشاں آفریدی، شاہد خان، ڈاکٹر حسین، سندھ میں مہوش سید، مرتضیٰ علی ہیں۔
صوبوں کے ساتھ ساتھ ڈویژن اور اضلاع میں کام جاری ہے۔ حیران کن اور دلچسپ امر ہے کہ ویل چیئرز، بیساکھیوں کے سہارے معذور افراد مکمل فعالیت کے ساتھ مساوات پارٹی کی تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔ جس لگن، شوق، دلچسپی اور محنت سے تمام معذور افراد کام کررہے ہیں اس سے پہلی کامیابی تو حاصل کرلی ہے۔ مساوات پارٹی کے ظہور کے پچھے بھی یہی جذبہ کار فرما ہے کہ ہم بار بار دھوکے کیوں کھائیں۔ ہم خود کیوں نہ میدان عمل میں نکلیں۔ چل پڑے ہیں تو پہنچ بھی جائیں گے۔ مساوات پارٹی تمام معذور، محروم، مظلوم اور پسے طبقات کی نمائندہ جماعت کے طور پر تشکیل پا رہی ہے، جس کی مثال دنیا بھر میں تاحال کوئی نہیں ہے۔