2003 میں ایک المناک ٹریفک حادثہ پیش آیا جس میں وہاڑی کے رہائشی صدام حسین کی بائیں ٹانگ گھٹنے تک کٹ گئی تھی، اس کے بعد سے آج تک ہاکی ہی ان کی دوسری ٹانگ ہے۔ اس وقت صدام 29 سال کے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، میں 2018 اور اس سے قبل 2013 کے عام انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے گیا لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ معذور افراد کے لیے پولنگ سٹیشن میں کسی قسم کے انتظامات نہیں کیے گئے تھے، یہاں تک کہ بیٹھنے کے لیے کرسی تک موجود نہ تھی۔ ویل چیئر کے گزرنے کے لیے ڈھلوان والا رستہ بھی موجود نہیں تھا۔ 2 گھنٹے تک انتظار کرتا رہا لیکن لمبی لائن کی وجہ سے تھک گیا اور ہمت جواب دے گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹ کاسٹ کیے بغیر ہی گھر واپس آنا پڑا۔
صدام کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ہر علاقے میں ترجیحی بنیادوں پر معذور افراد کے لیے الگ پولنگ سٹیشن بنائے جانے چاہئیں کیونکہ عام پولنگ سٹیشنز میں بہت زیادہ ہجوم ہوتا ہے اور کسی قسم کے خاص انتظامات نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی آبادی کا ڈھائی فیصد حصہ معذور افراد آسانی سے ووٹ کا حق استعمال نہیں کر سکتے۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہیں سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت کا بہت شوق ہے لیکن سیاسی جماعتوں کی جانب سے معذور افراد کو سیاسی عمل کا حصہ بنانے کا رواج ہی نہیں ہے۔ اس لیے جب الیکشن قریب آتے ہیں تو سیاسی کمپین کے دوران جلسوں میں جاتا ہوں لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ وہاں معذور افراد کے لیے الگ سے انتظامات نہیں کیے جاتے حالانکہ یہ انسانی حقوق کا اہم حصہ ہے کہ ریاست معذور افراد کی آسانی کے لیے عمارات اور گزرگاہوں میں معذور افراد کے گزرنے اور آسان رسائی کے لیے انتظامات کرے اور تقریبات میں معذور افراد کے لیے جگہ مخصوص کی جانی چاہیے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا جس سے معذور افراد میں سیاسی عمل میں دلچسپی کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔
سوشل ایکٹیوسٹ و قانون دان سید وقاص سعید بتاتے ہیں کہ پاکستان کی ڈھائی فیصد سے زائد آبادی معذور افراد پر مشتمل ہے جن میں بڑی تعداد جسمانی معذور افراد کی ہے۔ عام انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کے حوالے سے انہیں بے شمار مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ آئین پاکستان کا ایکٹ The Representation of the people act 1976 (Act# LXXXV of 1976) معذور افراد کے ووٹ کے حق کا تحفظ کرتا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت معذور افراد کو حق ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کے قومی فرض کو پورا کرنے کے لیے اپنا ساتھی منتخب کر سکتے ہیں۔ معذور افراد اپنے ساتھی کو پولنگ بوتھ تک لے جا سکتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ وہ درست اور خفیہ طریقے سے ووٹ ڈالے۔
اس کے علاوہ معاشرے کے افراد اور ادارے ذمہ دار ہیں کہ وہ معذور افراد کے لیے ایسی سہولیات فراہم کریں جن کی مدد سے وہ نارمل زندگی گزارنے میں آسانی محسوس کریں۔ عمارات، بازار، ادارے اور راستے ایسے ہوں جن سے ان کی آسان رسائی ممکن ہو۔
الیکشن مشاہدہ کار چوہدری احسان باری بتاتے ہیں کہ عام طور پر معذور افراد کے لیے الیکشن جیسے معاملات مشکل ترین ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں مجموعی طور پر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ان افراد کا سیاسی عمل سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس عمل میں شمولیت ان کے لیے ممکن ہے حالانکہ اقوام متحدہ کے کنونشن برائے حقوق معذور افراد کے آرٹیکل 29 میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ناصرف ووٹ رجسٹریشن ان کا حق ہے بلکہ انہیں سیاسی عمل میں باقاعدہ طور پر شامل کیا جائے اور ووٹ ڈالنے کے حوالے سے پولنگ سٹیشن تک ان کی آسان رسائی ممکن بنائی جائے۔ اگر وہ نابینا ہیں یا ان کی قوت بصارت کمزور ہے تو انہیں باقاعدہ ایک شخص ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے۔ وہ شخص والد، والدہ، شوہر، بیوی، بیٹا، بیٹی یا کوئی اور جس پر معذور شخص کو اعتماد ہو، ساتھ لے جا سکتا ہے اور اگر وہ بیلٹ پیپر پر مہر نہیں لگا سکتا تو اس کے ساتھ جانے والا شخص اس کی مرضی کے امیدوار کے انتخابی نشان پر مہر لگا سکتا ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
انہوں نے بتایا کہ کنونشن برائے حقوق معذور افراد کے مطابق معذور افراد کو برابری، خود ارادیت، غیر امتیازی سلوک، شرکت، آسان رسائی اور شمولیت کا حق ہے۔ اس کے تحت الیکشن رولز 2017 میں ترامیم کی گئیں۔ الیکشن رولز 2017 کے سیکشن 69 کے مطابق ایسا ووٹر جس کے شناختی کارڈ پر وہیل چئیر کا مخصوص نشان موجود ہے اس کے ساتھ اس کی مرضی سے معاون بھیجا جائے۔ سیکشن 74 کے باب 5 میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر معذور ووٹر کا معاون بیلٹ پیپر پر مہر لگاتا ہے تو پریذائیڈنگ افسر اس بات کو یقینی بنائے کہ اسی انتخابی نشان پر مہر لگی ہے جس کا ووٹر نے بتایا ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 48 میں بیان کیا گیا ہے کہ معذور افراد جو غیر مسلم اور خواجہ سرا ہیں، ان کی ووٹر رجسٹریشن کے لیے الیکشن کمیشن خصوصی اقدامات کرے۔
سماجی تنظیم 'ینگ مین سوسائٹی' کے صدر صادق مرزا کا کہنا ہے کہ سیاسی عمل میں معذور افراد کی کم شمولیت کی ایک بڑی وجہ ہمارے رویے ہیں۔ عام طور پر دیہاتوں میں رہنے والے افراد یہ سوچتے ہیں کہ معذوری ایک قدرتی عمل ہے، اس لیے معذور افراد کے لیے شناختی کارڈ یا ووٹ رجسٹریشن کی ضرورت نہیں حالانکہ معذور افراد بھی ووٹ دینے اور سیاسی عمل میں شمولیت اختیار کرنے کا یکساں حق رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے معذور افراد میں عدم دلچسپی انہیں یکسر نظرانداز کرنے کے مترادف ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ معذور افراد سیاسی عمل میں بہ آسانی شامل نہیں ہو سکتے حالانکہ معذور افراد کو باقاعدہ سیاسی عمل، الیکشن کمپین وغیرہ میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ انہیں ہر سطح پر سیاسی تنظیم سازی میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے ضلعی ایڈوائزر حاجی شمعون نذیر کا کہنا ہے کہ ہماری سیاسی جماعت نے ہمیشہ معذور افراد کو اہمیت دی ہے لیکن پاکستان میں سیاسی عمل میں زیادہ تر تیزی صرف الیکشن سے چند ماہ قبل ہی آتی ہے، اس سے قبل عام سیاسی کارکنان بھی زیادہ متحرک نہیں ہوتے لیکن اس بات میں بھی حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتیں معذور افراد کو الیکشن بارے آگاہی دینے کے لیے ووٹ کی اہمیت پر سیشن شاذونادر ہی منعقد کرتی ہیں جس کی بہرحال ضرورت ہے کیونکہ معذور افراد کا ووٹ بھی اسی قدر اہم ہے جس قدر عام ووٹر کا۔
سماجی رہنما صبوحی حسن کا کہنا ہے کہ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ معذور افراد کے بارے میں قابل بھروسہ اور صحیح اعداد و شمار بھی دستیاب نہیں ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق معذور افراد کی آبادی کل آبادی کا ڈھائی فیصد ہے جبکہ معذور افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق یہ آبادی 10 فیصد کے قریب ہے۔ اعداد و شمار نامکمل ہونے کی وجہ سے معذور افراد کو فراہم کی جانے والی سہولیات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
اداروں کے پاس معذور افراد کے لیے الیکشن پراسیس میں آسانی کے لیے ٹیکنالوجی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ آسٹریلیا میں بینائی سے محروم افراد کے لیے ٹیلی فونک ووٹنگ کا طریقہ کار متعارف کرایا گیا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے بھی ووٹنگ کا عمل سہل اور بہتر ہو سکتا ہے لیکن تاحال اس نظام کو بھی لاگو نہیں کیا جا سکا حالانکہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو آئندہ الیکشن میں قابل استعمال بنانے کے لیے کافی محنت کی تھی۔ متعدد ممالک میں آن لائن ووٹنگ کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے لیکن تاحال پاکستان میں اس بارے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
قانون دان اعجاز حسین مغل کا کہنا ہے کہ معذور افراد کے لیے پولنگ سٹیشن تک آسان رسائی کے لیے پولنگ کے مقام کا مناسب انتخاب بھی ضروری ہے۔ دور دراز اور مشکل رسائی والے پولنگ سٹیشنز معذور افراد کو حق رائے دہی سے محروم کر سکتے ہیں۔ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ معذور افراد کے لیے الیکشن سے قبل ووٹر ایجوکیشن کی سرگرمیاں منعقد کی جائیں تاکہ ان کو درست نمائندگان کے انتخاب میں آسانی ہو سکے۔ ان کی باقاعدہ ٹریننگ کرائی جائے اور آگاہی مہم شروع کی جائے جس سے زیادہ سے زیادہ معذور افراد کو مستفید کیا جا سکے۔
ضلعی الیکشن کمیشن کے مطابق ہر عام انتخاب کی طرح اس بار بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے چند اہم ہدایات جاری کی گئی ہیں جن کے مطابق پولنگ سٹیشن میں ریمپ بنانا ضروری ہے تا کہ جسمانی معذوری کے شکار افراد وہیل چیئر سے بہ آسانی پولنگ بوتھ تک جا سکیں۔ اس کے علاوہ پولنگ سٹیشن میں وہیل چیئر کی دستیابی لازمی قرار دی گئی ہے اور پولنگ سٹیشن خاص طور پر گراؤنڈ فلور پر بنانے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ معذور افراد بہ آسانی ووٹ ڈال سکیں۔
مقامی صحافی میاں وحید آرائیں بتاتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو ریمپ اور وہیل چیئر کی دستیابی بارے جو ہدایات جاری کی جاتی ہیں وہ محض کاغذی کارروائی ہے جبکہ دوران رپورٹنگ ہم نے کبھی یہ سہولیات پولنگ سٹیشنز پر نہیں دیکھیں۔ یہاں تک کہ عام آدمی کے لیے بھی بنیادی سہولیات مثلاً پینے کا صاف پانی، صاف باتھ رومز اور سایے کا انتظام نہیں کیا جاتا۔ ان کے لیے یا تو فنڈز جاری ہی نہیں کیے جاتے یا ان فنڈز کو کاغذی کارروائی کے ذریعے پورا کر کے ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔
پروفیسر ارشد جبار پیدائشی طور پر چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے معذوری کے باوجود 30 سال تک نجی کالج میں بطور لیکچرار خدمات سرانجام دی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ معذوری کے باوجود متحرک زندگی گزاری ہے۔ اس کے باوجود کہ پولنگ سٹیشن تک پہنچنا انتہائی دشوار عمل ہے لیکن ہر الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرتا ہوں۔ کبھی کسی سیاسی جماعت نے تنظیم میں عہدے کی پیشکش نہیں کی۔ یہ ایک تکلیف دہ بات ہے کہ ہم معذور افراد اگر چلنے سے معذور ہیں تو باقی تمام کام تو نارمل لوگوں کی طرح کرتے ہیں لیکن معاشرے میں اس بات کا شعور تاحال اجاگر نہیں ہو سکا۔ وہ بتاتے ہیں کہ 2 بار ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات بھی کر چکے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جب تک پاکستان فلاحی ریاست نہیں بن جاتا تب تک معذور افراد اور دیگر پسے ہوئے طبقات کی زندگی شدید مشکلات کا شکار رہے گی۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں معذور افراد کی تعداد 3۔3 ملین سے 27 ملین ہے لیکن تاحال اس کے ٹھیک اعداد و شمار معلوم نہیں ہو سکے۔
سماجی رہنما محمد وسیم باری جنہوں نے معذور افراد کے شناختی کارڈ رجسٹریشن کے حوالے سے پروجیکٹ میں کام کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہمارے 80 فیصد پولنگ سٹیشن معذور افراد کے لیے قابل رسائی نہیں ہوتے۔ پولنگ اسٹیشن کی بات تو الگ ہے، ہمارے ضلع میں سوشل ویلفیئر کا ادارہ جو معذور افراد کے حقوق کا ترجمان ہے، اس کے دفاتر میں بھی معذور افراد کی آسان رسائی کے لیے مناسب انتظام نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ضلع بھر میں ایک بھی سرکاری یا نجی عمارت ایسی نہیں جہاں معذور افراد کے لیے مخصوص باتھ روم بنایا گیا ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن ایسے پولنگ سٹیشن بنانے کا پابند ہے جہاں معذور افراد کی آسان رسائی کا بندوبست ہو مثلاً وہاں ریمپ، کرسیاں اور دیگر سہولیات موجود ہوں لیکن ایک بھی پولنگ سٹیشن ضابطے کے مطابق نہیں بنایا جاتا۔ عوام کے لیے پینے کا صاف پانی، باتھ رومز، سایہ دار جگہ، بیٹھنے کے لیے کرسیاں اور فرسٹ ایڈ کی سہولیات بھی ہونی چاہئیں مگر وہ بھی موجود نہیں ہوتیں اور اس حوالے سے کوئی پوچھ گچھ بھی نہیں کی جاتی۔
وسیم باری بتاتے ہیں کہ معذور افراد کی رجسٹریشن بھی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے کیونکہ محکمہ سوشل ویلفیئر سے معذوری سرٹیفکیٹ کے لیے وہیل چیئر کے نشان والا شناختی کارڈ ضروری ہے جبکہ وہیل چیئر کے نشان والا شناختی بنانے کے لیے نادرا نے معذوری سرٹیفکیٹ کی شرط رکھی ہوئی ہے۔ اس طرح معذور افراد آسانی کے بجائے مشکل کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاڑی کے ایک دیہات 24 ڈبلیو بی میں 100 سے زائد معذوروں کے سپیشل شناختی کارڈ اور معذوری سرٹیفکیٹ نہیں بن سکے جس سے وہ عام انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال نہیں کر سکیں گے۔
وہاڑی کے رہائشی 53 سالہ غلام مصطفیٰ پیدائشی گونگے بہرے ہیں اور اپنی تنظیم کے سابق صدر ہیں۔ ان سے گفتگو کی گئی تو ان کے بیٹے نے اشاروں کی تفصیل بتائی کہ ان کے والد سیاسی طور پر بہت متحرک ہیں اور سیاسی مذہبی جماعت کو سپورٹ کرتے ہیں۔ حالانکہ انہیں جماعت میں کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی لیکن وہ اپنے طور پر جماعت کی سپورٹ کرتے ہیں بلکہ اپنے احباب کو اشاروں میں یہ بات کہتے ہیں کہ اگر وہ ان کی جماعت کو ووٹ نہیں دیں گے تو وہ ناراض ہو جائیں گے۔ وہ چونکہ جسمانی طور پر تندرست ہیں اس لیے لائنوں میں لگ کے ووٹ ڈالتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معذور افراد کو بھی مخصوص نشستوں کے ذریعے اسمبلی کا حصہ بنانا چاہیے کیونکہ اپنی کمیونٹی کو ان سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ معذور افراد کے حقوق کے تحفظ اور ان کے لیے سہولیات فراہم کرانے کے حوالے سے ان کا نمائندہ ہی بہترین کردار ادا کرسکتا ہے۔
سماجی رہنما غلام خدیجہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے معذور افراد کے حقوق کے حوالے سے مختلف پروجیکٹس میں کام کیا ہے۔ سیاسی عمل میں شمولیت اور ووٹ کاسٹنگ میں سب سے بڑی رکاوٹ معذور کی اپنی فیملی ہوتی ہے کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ ان کے علاقے کے پولنگ سٹیشن معذور افراد کی رسائی کے حوالے سے غیر موزوں ہوتے ہیں اور لمبی لائنوں میں لگ کر وہ ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتے۔ اس لیے فیملی کے افراد انہیں لے کر ہی نہیں جاتے البتہ جو معذور آسانی سے چل پھر سکتے ہیں وہ ووٹ ڈال لیتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں سیاسی عمل میں شمولیت کے حوالے سے کچھ معذور افراد میں کافی جوش و جذبہ ہوتا ہے لیکن زیادہ تر اس سے عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ انہیں معاشرہ سیاسی عمل میں شمولیت کے لیے سازگار ماحول مہیا نہیں کرتا۔