لوگ کہتے ہیں کہ میرے لہجہ میں تلخی بڑھ گئی ہے۔ لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے لیکن کسی نے اس تلخی کی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کی۔ مسئلہ یہ ہے کہ میرا ضمیر زیادتی کو برداشت نہیں کرتا۔ چاہے وہ زیادتی کسی فرد کی جانب سے ہو یا ادارے کی۔ میری ہمدردی ہر اس شخص کے ساتھ ہے جس کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
معاشرے میں اگر تلخی کے باعث عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے تو اس کی وجہ بھی انصاف کی عدم دستیابی ہے۔ جب ایک بے قصور وزیراعظم کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جائے گا اور دوسرے کو بے گناہ پس دیوار زنداں ڈال دیا جائے گا تو تلخی تو پیدا ہو گی۔ جب ایک ادارہ اپنے سابق سربراہ کو غداری کے مقدمے میں ملزم کی حیثیت میں پیش ہونے سے بچانے کیلئے اس کے فرار میں مددگار بنے گا اور پھر سزا سنائی جانے کے بعد اس کو بچانے کی کوشش کرے گا تو تلخی تو پیدا ہو گی۔ جب افراد اور اداروں کی غلط کاریوں پر تنقید کرنے والوں کو قید و بند کی صعوبت برداشت کر نا پڑیں گی تو تلخی تو پیدا ہو گی۔
ہمارا پیارا دین ہمیں مساوات کا درس دیتا ہے۔ عالمی قوانین بھی اسی کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ غیر مسلموں نے تو ہمارے پیارے دین کے مساوات کے اصول کو اپنے ممالک میں قانون کا درجہ دے کر اس پر سختی سے عمل شروع کر دیا لیکن جو ملک حاصل ہی اسلام کے نام پر کیا گیا وہاں کی اشرافیہ اس اصول کو لاگو نہیں ہونے دیتی۔
ذرا ٹھہریے کیا تلخی صرف میرے ہی اندر ہے؟ کیا سابق غاصب پرویز مشرف کے خلاف بنائے گئے کمیشن کے ججز کے فیصلے میں تلخی نظر نہیں آتی؟ موجودہ چیف جسٹس کے ڈی ایچ اے کے بارے میں دیئے گئے ریمارکس میں کیا تلخی نہیں پائی جاتی؟ تلخی معاشرے کے ہر شخص کے مزاج میں در آئی ہے اور اسکی وجہ نا انصافی اور عدم مساوات ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر کسی کو قتل کر دینا، تلخی کا ہی نتیجہ ہے جو عدم مساوات کی وجہ سے ہے۔
انصاف کے زرین اصول اپنا لیے جائیں اور ہر ایک سے مساوی سلوک کیا جائے تو آہستہ آہستہ معاشرے میں موجود تلخی کم ہوتی جائے گی۔ کوئی شخص خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اس کے حقوق ایک مجبور و بے کس شخص سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ معاشرے میں موجود اسی عدم مساوات نے میرے لہجے میں تلخی گھول دی ہے اگر لوگ اسے بغاوت سے تعبیر کرتے ہیں تو ہاں میں باغی ہوں۔