پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی نے 9 مئی کو ہونے والے واقعات کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کی فوٹوگرامیٹک رپورٹ جاری کر دی جس کے مطابق یاسمین راشد کی جناح ہاؤس کے باہر موجودگی ثابت ہوگئی۔
رپورٹ کے مطابق جناح ہاؤس کے باہر ویڈیو کلپس میں نظر آنے والی خاتون یاسمین راشد ہی ہیں۔ فوٹو گرامیٹک رپورٹ سے یاسمین راشد کی جناح ہاؤس کے باہر موجودگی ثابت ہوتی ہے۔ لاہور پولیس نے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کو فوٹوگرامیٹری ٹیسٹ کی درخواست کی تھی۔
فرانزک رپورٹ کے مطابق حملے کے وقت کی تین آڈیوز اور ویڈیوز ڈاکٹر یاسمین راشد کی ہی ہیں۔ ویڈیوز اور آڈیو ایس پی کینٹ انویسٹی گیشن کی طرف سے فرانزک سائنس ایجنسی کو بھجوائی گئی تھیں۔
علاوہ ازیں ڈاکٹر یاسمین راشد کو جن ملزمان کے بیانات کی روشنی میں مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا ان کی تفصیلات بھی سامنے آگئی ہیں۔
دوسری جانب انسداد دہشت گردی عدالت کی ایڈمن جج عبہر گل خان نے اداروں کیخلاف اشتعال انگیز تقاریر اور جلاؤ گھراؤ کے کیس میں ڈاکٹر یاسمین راشد کی بعد از گرفتاری درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
عدالت نے ڈاکٹر یاسمین راشد کی درخواست ضمانت پر مزید دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت 9 جون تک ملتوی کردی۔
3 جون کو پولیس نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو جناح ہاؤس حملہ کیس میں ایڈمن جج عبہر گل خان کی عدالت میں پیش کیا تھا اور 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔ تاہم عدالت نے پولیس کی استدعا مسترد کردی اور ڈاکٹر یاسمین راشد کو کیس سے بری کر دیاتھا۔
عدالت کی جانب سے جاری فیصلے میں کہا گیا کہ پولیس نے درخواست دی تھی کہ یاسمین راشد سے موبائل برآمد کرنا ہے اور فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ کروانا ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد اس مقدمہ میں نامزد نہیں۔ شریک ملزم کے بیان کی بنیاد پر بلایا گیا۔ کوئی ایسا ٹھوس ثبوت نہیں پیش کیا گیا جس سے ثابت ہوکہ وہ اس جرم میں ملوث ہیں۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کے خلاف ریکارڈ پر کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں۔ اگر یاسمین راشد کسی اور مقدمے میں مطلوب نہیں تو رہا کر دیا جائے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کے وکیل نے کہا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کو ملزمان کے بیانات کی روشنی میں مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا۔
پولیس نے عدالت کے حکم پر مقدمہ نمبر 96/23 سے ڈاکٹر یاسمین راشد کا نام نکال دیا۔
گزشتہ روز آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹرعثمان انورنے یاسمین راشد سمیت دیگرکی بریت کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت نے تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے ہی بریت کا فیصلہ سنا دیا۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹرعثمان انور کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے افراد کی 215 کالز ہیں، 8 مارچ کو زمان پارک کے باہر جو ہنگامے کیے گئے۔ وہی لوگ 9 مئی کو جناح ہاؤس میں ہونے والے ہنگامے میں بھی ملوث ہیں۔ہم ان کی رہائی کے خلاف اپیل کرنے جا رہے ہیں۔ عدالت کے سامنے ثبوت رکھیں گے۔ڈاکٹر یاسمین راشد کی 41 کالز ہیں جو جی ایس ایم کی ہیں۔ واٹس ایپ کالز اور دیگر ڈیٹا بھی عدالت میں رکھیں گے۔ اس کے علاوہ حماد اظہر، میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری، مراد راس، اور میاں اسلم اقبال کی کالز ہیں جو عدالت کے سامنے رکھیں گے۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ 154 رابطہ نمبرز ایسے ہیں جو 8 مارچ کو استعمال کیے گئے اور 9 مئی کو بھی، یہ وہ لوگ ہیں جو ہر اول دستہ ہیں۔ یہ تمام لوگ وہاں موجود ہیں۔ ان کی جیو فیسنگ ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ راولپنڈی کے 88 کالرز ہیں جو اپنی قیادت کے ساتھ منسلک ہیں۔ان کی کالز موجود ہیں جو عدالت میں پیش کیے جانے کے قابل ثبوت ہیں جنہیں ہم عدالت میں پیش کر رہے ہیں۔ یہ جی ایچ کیو کا کیس ہے۔ ایک جیسی ٹائمنگ ہے۔ ایک جیسے ریاستی ادارے ان کے اہداف ہیں۔
ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر کے باہر ایک شہید کی یادگار ہے۔ ان کی یادگار کو توڑا گیا۔ اس کو مسخ کیا گیا۔ 25 کالرز ایسے ہیں جو حملے کے وقت وہاں موجود تھے۔میانوالی پی ایف بیس کی دیوار تڑوائی گئی۔ فائرنگ کرائی گئی۔ ایم ایم عالم کے جہاز کو جلایا گیا۔ جہاں دشمن نہ پہنچ سکا۔ وہاں یہ شر پسند پہنچ گئے۔ اس دوران کی گئی کالز کا بھی ہمارے پاس تمام ریکارڈ موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ 165 ملزمان اپنی قیادت کے ساتھ رابطے میں تھے۔ جن کی شناخت ہوچکی ہے۔ ان میں سے 37 گرفتار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو گرفتار کیوں کیا۔وہ لوگ جو جناح ہاؤس کے اندر موجود تھے۔ان میں سے 101 کی شناخت ہوچکی ہے۔ 18 گرفتار ہیں۔8 مارچ کو زمان پارک میں ہنگامہ کیا۔ اس دن انہوں نے 34 پولیس والے زخمی کیے۔ اس دن کے 120 بندوں کی شناخت ہوچکی ہے۔ 19 گرفتار ہوچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جو بی پارٹی بنتے ہیں جن کے ساتھ یہ لوگ آگے رابطہ کرتے ہیں۔ ان میں سے 152 کی شناخت ہوچکی، 40 گرفتار ہیں۔ ان کے خلاف ثبوت و شواہد موجود ہیں جو عدالت میں پیش کیے جائیں گے۔
آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ان کے واٹس ایپ پر گروپ بنے ہوئے تھے۔ ہم نے 170 بندوں کی شناخت کرلی۔ 11 گرفتار ہوچکے۔ ان 708 بندوں میں سے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ گرفتاریاں کیوں ہو رہی ہیں، یہ ثبوت ہیں جن کی وجہ سے 125 بندے عدالتوں میں پیش کیے جاچکے ہیں اور ہر ایک کو پیش کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے مظلومیت کارڈ کھیلا گیا۔ نیا جھوٹ بولا گیا کہ خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ 40 بندے مار دیے۔ پھر کہا گیا کہ 25 مار دیے۔ جب ہم نے کہا کہ لاشیں کہاں ہیں، ڈی این اے کراتے ہیں پھر پتا چلا کہ 4 بندے ان ہی کی فائرنگ سے یا ایک بندہ دھویں میں پھنس کر مر گیا کیونکہ انہوں نے فائربریگیڈ نہیں جانے دی۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس غیر مسلح تھی۔ آرمی نے گولیاں نہیں چلائیں۔ تمام تھانوں میں کیمرے موجود ہیں۔ 50 خواتین زیر حراست ہیں۔ تمام خواتین قیدی خواتین کے لیے مختص پولیس تھانوں میں قید ہیں۔ اگر کوئی شکایت ہے تو ہم نے کمیٹی بنادی ہے۔زیادتی تو خواتین اہلکاروں کے ساتھ کی گئی۔ اب تک ہم نے بہت برداشت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جھوٹے الزامات، جھوٹی تصاویر اور ویڈیوز پھیلائی گئیں۔ بعد میں انہوں نے اپنی ٹوئٹ ڈیلیٹ کیں۔
حسن نقوی تحقیقاتی صحافی کے طور پر متعدد بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔ سیاست، دہشت گردی، شدت پسندی، عسکریت پسند گروہ اور سکیورٹی معاملات ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔ آج کل بطور پولیٹیکل رپورٹر ایک بڑے نجی میڈیا گروپ کے ساتھ منسلک ہیں۔