ضلع کیچ کی تحصیل بلیدہ سے جبری لاپتہ 12 افراد کے فیملی ممبران اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بدھ کی شام تربت میں شہید فدا چوک سے ایک ریلی نکالی۔ اس میں ضلع کیچ کے مختلف علاقوں سے لاپتہ کیے گئے افراد کے متاثرہ خاندانوں کے علاوہ بی ایس او پجار کے کارکنان اور عام لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
ریلی میں خواتین اور بچے بھی شریک تھے جنہوں نے لاپتہ افراد کی تصاویر کے ساتھ احتجاجی نعروں پر مبنی بینر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ ریلی کے شرکا نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے نعرے بازی کرتے ہوئے مختلف سڑکوں پر مارچ کیا اور ڈپٹی کمشنر کیچ کے آفس کے سامنے دھرنا گاہ پر جلسہ کیا۔
لاپتہ افراد کے فیملی ممبران نے احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی فرد کو ماورائے عدالت اور قانون غائب کرنا ملک کے قانون کی خلاف ورزی اور شہریوں کے حقوق کی پامالی ہے، ہم جیسے ہزاروں خاندان بلوچستان بھر میں سڑکوں پر سالوں سے خوار پھر رہے ہیں مگر کسی کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ انتظامیہ اور عدلیہ سے لے کر پارلیمنٹ تک سب گونگے اور بہرے بن گئے ہیں۔ ریاست میں قانون کا راج ختم ہو گیا ہے۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے نوجوان سالوں سے زندانوں میں جبر کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے فیملی ممبران کو ان کی خیریت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا۔ ہم نے انصاف کے لیے ہزاروں کلومیٹر پیدل لانگ مارچ کیا، عدلیہ کا در کھٹکھٹا کر دیکھا، وزرا کے پاس گئے اور انتظامیہ سے بارہا ملاقات کی لیکن ہمارے پیارے اس کے باوجود بازیاب نہیں ہوئے بلکہ جبری گمشدگی کے واقعات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ آئے روز کسی نہ کسی علاقے سے جبری گمشدگی کی اطلاع آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں نظر آتی۔ جس ادارے کے جو جی میں آئے وہ قانون کو بالائے طاق رکھ کر وہی کر گزرتا ہے۔ ہم نے با رہا کہا ہے کہ اگر جبری گمشدہ کیے گئے ہمارے پیارے گناہ گار ہیں تو انہیں اپنی ہی عدالتوں میں پیش کر کے سزا دلوائیں مگر عدالتوں کے سامنے پیش تو کریں تا کہ ہمیں ان کے متعلق معلومات حاصل ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ وہ ڈپٹی کمشنر کے آفس کا گھیراؤ ختم نہیں کریں گے جب تک انہیں لاپتہ افراد کے بارے میں تسلی بخش جواب نہیں دیا جاتا۔