رواں سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر دنیا بھر میں عورتوں کے حقوق کے حصول کے لئے تمام ممالک معاشرے میں خواتین کی خود مختاری کے لئے اہم اقدامات کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ میں ہر سال مارچ کے مہینے میں دو ہفتے تک خواتین کے لئے عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں دنیا بھر کے ممالک سے تعلق رکھنے والے سماجی و انسانی حقوق کے کارکنان اور سیاسی رہنماؤں کے علاوہ حکومتی نمائندگان کی شرکت عام ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کے سروے کے مطابق اپریل 2019 تک دنیا کی انسانی آبادی 7.46 ارب تک جا پہنچی ہے اور اس کا پچاس فیصد حصہ عورتوں پر مشتمل ہے مگر معاشرے میں خواتین کے مساوی حقوق اور خودمختاری پر ہمارے معاشرے میں سوالیہ نشان ظاہر ہوتا ہے۔
پاکستان میں عورتوں کی خودمختاری کے حوالے سے بہت سی روکاٹیں پیدا کی جاتی ہیں اور انہیں معاشرے میں مردوں کے مقابلے میں کمزور سمجھا جاتا ہے، اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا ساتھ دینے والی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی کردار کشی کی گئی۔ یہ تاریخ میں ایک عبرت ناک باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ 1964 کے صدارتی انتخابات میں یہ نظریہ عام کیا گیا کہ ریاست پاکستان کی قیادت عورت نہیں کر سکتی اور ملکی آمریت نے اپنے مفادات کے حصول کے لئے انہیں بہت سے طعنے بھی دیے۔ اس کے بعد جنرل ضیاالحق کے آمرانہ دور کے بعد جمہوری نظام کی بحالی کے لئے طویل جدوجہد کرنے والی خاتون لیڈر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان اور مسلم دنیا میں پہلی خاتون وزیراعظم بن کر ملک میں آمرانہ سوچ کو شکست دے کر کئی شازشوں کو ناکا م بنایا مگر دوسری جانب ان کے سیاسی حریف نواز شریف نے اپنے سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لئے اُن کی کردار کشی کرنے کے لئے ہوائی جہاز کے ذریعے غیر ضروری تصاویری مہم کا آغاز کیا اور اپنی سیاسی تقایر میں بھی شہید بے نظیر کے لئے نامناسب لفظوں کا چناؤ کیا مگر بی بی شہید نے اپنی جدوجہد جاری رکھی کیونکہ وہ ایک بہادر باپ کی بہادر بیٹی تھی۔
پاکستان میں اقلیتی لڑکیوں خاص کر ہندو مذہب کی کم عمر بچیوں کو یرغمال بنا کر جبری طور پر مذہب تبدیل کیا جاتا ہے اور پچھلی ایک دہائی سے یہ سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ اقوام عالم میں بھی زیر بحث ہے۔ اس موضوع پر ایک مکمل تحریر پھر کھبی پیش کروں گا۔
گذشتہ سال پاکستان کے تمام علاقوں میں عورت مارچ کا انعقاد ہوا اور اُس میں بہت سے نعروں نے جنم لیا، جس پر پاکستانی معاشرے کے مردوں کو تحفظات ہیں اور اسی نقطہ نظر کو لے کر اس عورت مارچ پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ عورت مارچ پر پابندی کے لئے قانونی اقدام بھی اُٹھایا گیا اور لاہور ہائی کورٹ نے عورت مارچ کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے عورت مارچ کی اجازت دے دی اور اخلاقی اقدار کو برقرار رکھنے کا حکم دیا۔
اس حوالے سے گذشتہ شب پاکستان کے ایک ٹی وی چینل پر پاکستان کے معروف ڈرامہ نگار و مصنف خلیل الرحمٰن قمر نے گفتگو کرتے ہوئے مشہور خاتون صحافی وانسانی حقوق کی کارکن ماروی سرمد سے بحث کرتے ہوئے ان کے خلاف نازیبا جملوں کا انتخاب کیا۔
’’میرے پاس تم ہو‘‘ تیزی سے شہرت پانے والا ڈرامہ تھا جس کے مصنف خلیل الرحمن قمر ہیں۔ ویسے کہا جاتا ہے یہ ڈرامہ کسی یورپی ڈرامے کی کاپی ہے۔ اگر یہ بات حقیقت ہے تو خلیل الرحمٰن قمر کی ادیبی صلاحیت پر سوال اٹھتا ہے۔ لیکن ہم بات کر رہے تھے عورت مارچ پر خلیل الرحمٰن قمر کے ماروی سرمد سے متعلق نازیبا الفاظ کی۔ اُ س سے ان کے کی تربیت کا فقدان واضح ہوتا ہے اور ان کی آمرانہ سوچ کے ساتھ ساتھ مرد ہونے کا تکبر بھی۔ اس وقت ملک کی بے شمار اہم شخصیات نے ان کے اس رویے پر مذمت کرتے ہوئے اپنی رائے پیش کی اور اس بات کو لے کر سوشل میڈیا پر ایک جنگ چھیڑی ہوئی ہے جس پر میں بھی اپنا نقطہ نظر پیش کرنا چاہوں گا کہ ماروی سرمد کے ’’میراجسم میری مرضی‘‘ کے نعرے سے ہم اختلاف کر سکتے ہیں بلکہ اُن کے نظریات سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا لیکن کسی عورت کے خلاف ایسی نازیبا گفتگو کرنا کسی صورت مناسب عمل نہیں کیونکہ معاشرے میں مرد کے لئے عورت ایک ماں، بہن، بیوی اور بیٹی جیسے اہم مراتب رکھتی ہے۔
ویسے بھی ہم نے اس بات کو سمجھنے میں کئی دہائیاں لگا دی ہیں کہ مرد کا عورت پر ہاتھ اُٹھانا ایک بزدلانہ عمل ہے۔ میرے لئے یہ بات کہنا درست ہوگی کہ کسی بھی معاشرے کے اچھے یا بُرے اقدام کا تعین اُس معاشرے کے ادبی، علمی اور سماجی شخصیات نے کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ میر خلیل الرحمٰن نے ایک نامناسب عمل کیا جس سے مردوں کی ترجمانی نہیں ہوتی بلکہ معاشرے کے مردوں کے سر شرم سے جھک جانے چاہئیں۔
میرا حکومت وقت اور پیمرا سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے غیرجانبدار ہونے کا ثبوت دے اور خلیل الرحمٰن قمر کے خلاف کارروائی کرے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی عورت کے خلاف اس طرح نازیبا گفتگو کا استعمال نہ کر سکے اور اگر حکومت و ادارے نے ایسا کچھ نہ کیا تو یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں میڈیا کنڑول کا شکار ہے اور موجودہ حکومت اظہار آزادی پر یقین نہیں رکھتی۔