صابر شاکر پاکستان کے ایک ایسے اینکر اور صحافی ہیں جن کے بارے میں آرا مکمل طور پر منقسم ہیں۔ ایک طرف وہ پاکستانی ہیں جو انہیں اس باعث قابلِ اعتبار نہیں سمجھتے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو ان کو اس لئے بے انتہا پسند کرتے ہیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہیں۔ لیکن دونوں اطراف کا اس حوالے سے اتفاق ہے کہ صابر شاکر اسٹیبلشمنٹ کو قریب سے جانتے ہیں، ان کے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے طاقتور افراد کے ساتھ براہِ راست تعلقات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی خبر کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے کہ یہ خبر وہاں سے لاتے ہیں جہاں سے پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں کی ڈوریں ہلائی جاتی ہیں۔
منگل 4 مئی کو ان کی ایک یوٹیوب ویڈیو نے اس وقت ملک بھر میں تہلکہ مچا دیا جب انہوں نے دعویٰ کر ڈالا کہ یہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرے گی اور عمران خان صاحب مدت مکمل کرنے سے پہلے ہی اسمبلی توڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے اس کے لئے دلائل بھی دیے لیکن ان دلائل کی طرف بڑھنے سے پہلے یہ یاد رہے کہ پاکستان میں حکومتوں کے آنے اور جانے کی تاریخیں دینا کوئی نئی بات نہیں۔ صابر شاکر کی یہ ویڈیو اس لئے اہمیت کی حامل ہے کہ یہ کوئی عمران خان کے مخالفین میں شمار نہیں ہوتے بلکہ یوں کہا جائے کہ ان کے ایک قریبی سمجھے جانے والے اینکر ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ ان کی طرف سے یہ بات آنا اسی لئے قابلِ غور امر ہے۔
مدت پوری کرنا عمران خان کے حق میں نہیں
عمران خان کی حکومت نے اپنے پہلے ڈھائی سال مخالفین کو دبانے، ان پر کیسز بنانے اور ان کو جیلوں میں ڈالنے میں صرف کر دیے۔ ان کی توجہ میڈیا پر بیانیے بنانے میں لگی رہی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ نہ تو اپوزیشن رہنماؤں پر تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی کرپشن ثابت ہو پائی ہے اور نہ ہی حکومت نے کوئی ترقیاتی کام کیے ہیں جس کے باعث اگلے ڈھائی برس میں بھی کسی چمتکار کی توقع رکھنا کارِ عبث ہے۔ ایسے میں عمران خان کو پانچ سال پورے کرنا وارا ہی نہیں کھاتا۔ تمام تر ضمنی انتخابات اس حقیقت کی گواہی دے رہے ہیں کہ ان کی جماعت عوام میں بے حد غیر مقبول ہو چکی ہے اور مستقبل میں اس کی قسمت بدلنے کے لئے کوئی جادو کی چھڑی کم از کم عمران خان کے ہاتھ میں نظر نہیں آتی۔ جوں جوں وقت آگے بڑھے گا، مقبولیت میں مزید کمی ہی آنے کا امکان ہے۔
جہانگیر ترین گروپ
عمران خان کے ماضی کے قریب ترین ساتھی جہانگیر ترین نے اپنا ایک بڑا اور طاقتور گروپ بنا رکھا ہے۔ اس گروپ میں شامل زیادہ تر افراد اپنے بل پر الیکشن جیت سکتے ہیں۔ عمران خان سے ان کا مطالبہ جہانگیر ترین کے خلاف چینی سکینڈل کی انکوائری بند کروانا ہے۔ عمران خان اگر ایسا کرتے ہیں تو عوام اور اپوزیشن ان کا جینا محال کر دیں گے اور ایسا نہیں کرتے تو پنجاب اور وفاق میں حکومت کسی بھی وقت گرائی جا سکتی ہے۔
اتحادیوں کی 'بلیک میلنگ'
عمران خان اسے چاہیں تو 'بلیک میلنگ' کا نام دے سکتے ہیں لیکن صابر شاکر کے مطابق ان کے اتحادی بشمول ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق، بلوچستان عوامی پارٹی اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سب ہی ان سے اقتدار میں مزید حصہ طلب کر رہے ہیں۔ کچھ کی مانگ وزارتوں کی ہے تو کچھ کے اراکین کو ترقیاتی فنڈز کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے حلقوں میں کام وغیرہ کروا سکیں اور کم از کم اگلے انتخابات میں اپنے علاقے کے عوام کو منہ دکھانے کے قابل ہو سکیں۔
عمران خان کے مخالفین
صابر شاکر کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کے مخالفین میں دونوں بڑی جماعتوں یعنی مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی میں قبل از وقت انتخابات کی خواہش ضرور موجود ہے لیکن ن لیگ میں اس کی مخالفت میں بھی طاقتور آوازیں موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ٹوئیٹ کی اور پھر حکومت نے اس کے لئے قانون سازی کرنے کو اپوزیشن سے بات چیت کا ڈول ڈالا تو بلاول بھٹو زرداری اس پر فوراً راضی نظر آئے۔ انہوں نے اسٹیبشلمنٹ کے کردار کا نقطہ ضرور اٹھایا جو کہ سیاسی طور پر کرنا ضروری تھا لیکن ساتھ ہی بات چیت کے لئے آمادگی ظاہر کر دی جس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم پیپلز پارٹی تو اصلاحات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے قبل از وقت انتخابات کی طرف جانے کے لئے تیار ہے۔
مسلم لیگ نواز کی جانب سے البتہ فی الحال انکار کیا گیا ہے۔ صابر شاکر کا کہنا ہے کہ مریم نواز اور نواز شریف دونوں نااہل ہیں۔ نواز شریف تاحیات جب کہ مریم نواز بھی کم از کم 2023 کا الیکشن نہیں لڑ سکتیں۔ ایسے میں قبل از وقت انتخابات میں ان دونوں کی ہی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ تاہم، شہباز شریف سے ابھی بات چیت کی جائے گی کیونکہ وہ اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز جانتے ہیں کہ مریم کے ایک آپشن کے طور پر موجود ہونے کی صورت میں ان کے لئے مسلم لیگ نواز کو اپنے طریقے سے چلانا ممکن نہیں ہوگا۔
صابر شاکر کے مطابق بلاول اور شہباز شریف دونوں ہی مریم نواز کی مقبولیت کے خوف سے انہیں انتخابی عمل سے باہر رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ اگر وہ عوام میں موجود ہوئیں اور مسلم لیگی ورکر اور ووٹرز کو موبیلائز کرنے کے لئے سڑکوں پر موجود ہوئیں تو نہ تو پیپلز پارٹی پنجاب میں کوئی بڑا معرکہ مار سکے گی اور نہ ہی شہباز شریف کے لئے ن لیگ کو اپنی پسند کی لائن پر چلانا ممکن رہے گا۔ اور پھر شاید ان کی وزارت عظمیٰ بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ کا خوف
اے آر وائے سے منسلک سینیئر صحافی صابر شاکر کا کہنا ہے کہ موجودہ اسمبلیاں اگست 2018 کے وسط میں وجود میں آئی تھیں اور ان کی مدت پانچ سال بعد یعنی 2023 اگست کے وسط میں ہی مکمل ہوگی جس کے بعد 45 سے 60 دن کے اندر انتخابات کروانا ہوں گے۔ فی الحال چیف جسٹس گلزار احمد پاکستان کے چیف جسٹس ہیں جو اس عہدے پر فروری 2022 تک برقرار رہیں گے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ عہدہ ستمبر 2023 تک جسٹس عمر عطا بندیال کے پاس ہوگا۔ چونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس وغیرہ سب ناکام ہو چکے ہیں، اب غالب امکان یہی ہے کہ ان کو چیف جسٹس بننے سے روکنا ممکن نہیں رہے گا۔ ایسی صورت میں 2023 کے انتخابات جو ستمبر کے آخری ہفتے یا اکتوبر کی ابتدا میں ہونے ہیں، یہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بطور چیف جسٹس نگرانی میں ہوں گے۔ صابر شاکر کہتے ہیں کہ یہ عمران خان اور ان کے علاوہ دیگر مقتدر قوتوں کو قبول نہیں ہوگا۔ جب کہ دوسری طرف مریم نواز اور نواز شریف کو ان کی موجودگی میں ہی انتخابات قابلِ قبول ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مریم نواز نے قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ آتے ہی ایک انٹرویو دے کر یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ عمران خان کی حکومت مدت پوری کرے اور پھر عوام کا سامنا کرے۔
سید طلعت حسین نے تاریخیں بھی دے دیں
سینیئر صحافی طلعت حسین نے اپنی ویڈیو میں کہا ہے کہ عمران خان صاحب بجٹ پاس کروانے کے بعد اراکین اسمبلی میں ترقیاتی فنڈز بانٹیں گے، ایک سال یہ پیسہ ان کے علاقوں میں لگایا جائے گا جس کے بعد انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ تاہم، طلعت حسین کہتے ہیں کہ کیا اس سے مسائل حل ہو جائیں گے؟ کیا عمران خان کی مقبولیت کو اس سے کوئی فائدہ ہوگا؟ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے۔