پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ بالاخر سنایا جانے والا ہے۔ ناصرف سیاسی تجزیہ کار بلکہ تحریک انصاف کی جانب جھکائو رکھنے والی صحافی بھی اس کیس کا پوسٹ مارٹم کر چکے ہیں۔
اے آر وائی سے وابستہ صحافی ارشد شریف ایسی دستاویزات سامنے لے آئے تھے جن میں واضح تھا کہ عمران خان کی جماعت کو یہودیوں اور ہندوئوں نے چندہ دیا جبکہ صابر شاکر نے کہا تھا کہ قانون بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت غیر ملکی فنڈنگ نہیں لے سکتی۔
صابر شاکر نے تحریک انصاف کو مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب اس کے بچنے کی صرف ایک ہی صورت ہے، وہ یہ کہ اس کے تمام عہدیدار مستعفی ہو جائیں اور ایک نئے نام سے پارٹی رجسٹرڈ کروائی جائے۔
اپنے یوٹیوب چینل پر سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے صابر شاکر کا کہنا تھا کہ ہمارے آئین اور قانون میں واضح طور پر درج ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت غیر ملکی فنڈنگ نہیں لے سکتی، اپنا بینک اکائونٹ نہیں چھپا سکتی جبکہ کسی سرکاری یا غیر سرکاری فارن تنظیم سے اسے ایک روپیہ بھی اسے نہیں دیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قانون میں تین چیزوں پر کوئی کمپرومائز نہیں ہے، ان میں سے پہلی یہ ہے کہ سیاسی جماعت بیرونی فنڈنگ نہیں لے سکتی، دوسری دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث نہیں ہو سکتی اور تیسری یہ کہ ملکی سالمیت کیخلاف کوئی اقدام نہیں اٹھا سکتی۔ ان تینوں میں سے ایک چیز بھی ثابت ہو جائے تو پولیٹیکل پارٹی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔
انہوں نے کہا تھا کہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر فیصلہ آنے سے پہلے پہلے اب پی ٹی آئی کیلئے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ کسی نئے نام سے سیاسی جماعت رجسٹرڈ کروائی جائے اور تمام عہدیدار مستعفی ہو جائیں۔
https://twitter.com/sharjeelinam/status/1554125075347288064?s=20&t=nZjq3wxtBEvtEhgytJD_Hg
صابر شاکر کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ صرف پی ٹی آئی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں جن میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی شامل ہیں کے ساتھ ہوا ہے۔ یہ جماعتیں دانستہ یا غیر دانستہ بیرون ممالک سے فنڈنگ لیتی رہی ہیں لیکن اس کو کبھی ظاہر نہیں کیا جاتا رہا۔ اب ملک کی ان بڑی جماعتوں کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔
بعد ازاں اے آر وائی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے صابر شاکر کا کہنا تھا کہ پہلے دن سے کہتا آ رہا ہوں کہ پی ٹی آئی کیخلاف فارن فنڈنگ کا کیس بہت مضبوط اور سنجیدہ ہے۔ گھر کے بھیدی نے ہی لنکا ڈھا دی۔ اکبر ایس بابر کے پاس سب کچھ ثبوتوں کیساتھ تھا جسے انہوں نے پیش کر دیا۔ یہ قانون اس قدر واضح ہے کہ اس میں اگر مگر نہیں ہے۔ 302 کے کیس میں تو عدالت کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ ملزم کو سزائے موت دیدے یا عمر قید، لیکن یہ پاکستانی قانون میں یہ بات بڑی واضح ہے کہ اگر فارن فنڈنگ ثابت ہو جائے تو وہ جماعت کالعدم ہو جاتی ہے۔ اگر یہ اتنا سادہ کیس ہوتا تو 7 سال تک لٹکایا نہ جاتا۔
دوسری جانب ارشد شریف نے بھی اپنے پروگرام میں کہا تھا کہ میرے سامنے جو دستاویزات پڑی ہیں ان میں فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے وہ تمام تر تفصیلات موجود ہیں جو پی ٹی آئی کو مختلف ادوار میں آتی رہیں۔ ان میں ان اوورسیز پاکستانیوں کی تفصیلات بھی شامل ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کو فنڈنگ کی اور دل کھول کر اس جماعت کو پیسہ بھیجتے ہیں۔
ارشد شریف نے کہا تھا کہ تاہم مسئلہ یہ نہیں ہے، مسئلہ وہاں پر آتا ہے جب پولیٹکل پارٹی آرڈیننس 2002ء میں جو شقیں ہیں، اس کیخلاف ہمیں ایسی کمپنیاں نظر آتی ہیں، حتیٰ کہ ان کی یہودی ڈکشنری میں بھی لسٹنگ ہے۔ اور یہ باقاعدہ طور پر امریکی شہریت کے بھی حامل ہیں۔ ان میں ایسے یہودیوں اور ہندوئوں کی تفصیلات ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کو فنڈنگ کی۔