”ججز کو صرف بالوں سے پکڑنا اور گرفتار کرنا ہی تضحیک نہیں ہوتا“

”ججز کو صرف بالوں سے پکڑنا اور گرفتار کرنا ہی تضحیک نہیں ہوتا“
جسٹس فائز عیسٰی کی جانب سے صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکن فل کورٹ بنچ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ججز کو صرف بالوں سے پکڑنا اور گرفتار کرنا ہی تضحیک نہیں ہوتا۔ ججز اور انکے اہلخانہ کی جاسوسی اور نجی زندگی میں مداخلت بھی تضحیک کے مترادف ہے۔ کیس میں جج، اہلخانہ کی تضحیک اور ہراساں کیا جانا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ صدر اور وزیراعظم نے کہاں غیرقانونی اقدام کیا؟ نشاندہی کریں۔ منیراے ملک نے کہا کہ وزیراعظم نے کابینہ کو بائی پاس کیا اور آئین کی خلاف ورزی کی۔ مواد اکٹھا کرتے ہوئے آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہوئی۔ پی ٹی آئی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہٹانے کی بات نظرثانی درخواست میں دائر کی تھی، جس سے حکومت کے مائنڈ سیٹ کا پتہ چلتا ہے۔

وکیل صفائی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ دوسری جانب صدر مملکت بھی سارے معاملے پر آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔ جج کے خلاف ملنے والے مواد پر صدر کی رائے قائم ہونا لازمی ہے۔ مذکورہ ریفرنس میں صدر مملکت نے اپنی آزاد رائے نہیں بنائی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اگر کسی ادارے کے پاس جج سے متعلق کوئی معلومات ہو تو وہ کیسے کارروائی کرے گا؟ جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ ادارے کے قوانین کو مدنظر رکھنے کے ساتھ اجازت لینا بھی ضروری ہوگی۔

عدالت نے مزید کارروائی کل دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔ وکیل صفائی کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔