سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے دیا
سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے دیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے عدالت نے صدارتی ریفرنس کو مسترد کر دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس گذشتہ برس سپریم جوڈیشل کونسل میں فائل کیا گیا تھا جس کے بعد قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست دائر کی تھی کہ ان کا کیس فل کورٹ میں سنا جائے۔ فل کورٹ نے سماعت کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سپریم کورٹ میں نمائندگی سینیئر وکیل منیر اے ملک کر رہے تھے جب کہ وفاق کی نمائندگی بیرسٹر فروغ نسیم نے کی تھی جنہوں نے بطور وزیرِ قانون ریفرنس بنایا بھی تھا اور بعد ازاں اپنے عہدے سے استعفا دے کر وفاق کی نمائندگی کرنے کے لئے وکیل بنے تھے۔

ان سے پہلے سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان وفاق کی نمائندگی کرتے رہے لیکن ان پر عدالت کے سخت ریمارکس کے بعد انہوں نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا تھا۔



مکمل مختصر فیصلہ یہاں پڑھیے: Justice Qazi Faez Isa case judgement







گذشتہ روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زوجہ نے سپریم کورٹ کو ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا جس میں انہوں نے اپنی منی ٹریل کے حوالے سے بیان ریکارٖڈ کروایا تھا۔ اس سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی عدالت میں اچانک پیش ہو کر یہ پیشکش کر چکے تھے کہ ان کی بیگم عدالت کو ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کروانا چاہتی ہیں۔ جس پر عدالت نے جمعرات کے روز ان کا بیان ریکارڈ کیا۔

عدالت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھی ہدایت دی ہے کہ وہ فوری طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیگم کو ٹیکس کے حوالے سے نوٹس بھجوائے۔ اور ایف بی آر کو پابند کیا ہے کہ وہ جلد از جلد اس پر کارروائی مکمل کر کے فیصلہ کرے۔

عدالت میں سات ججوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیگم کا فیصلہ ایف بی آر کو بھیجنے کا فیصلہ لکھا۔ جوڈیشل ریفرنس کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ متفقہ تھا۔ تین ججوں کے مطابق معاملہ ایف بی آر کو بھیجے جانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی جب کہ سات ججز نے معاملہ ایف بی آر کو بھجوانے کے حق میں فیصلہ دیا۔

اس موقع پر حامد خان ایڈووکیٹ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسے عدلیہ کی آزادی کی فتح قرار دیا اور کہا کہ یہ بار کی فتح ہے۔ ’’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک آزاد جج ہے، وہ ملک و قوم کے لئے آزادانہ فیصلے دیتا ہے‘‘۔

ریفرنس کالعدم قرار دے دیا گیا ہے جب کہ دس میں سات ججوں کی اکثریت سے انکم ٹیکس کا معامہ ایف بی آر کو بھجوا دیا گیا ہے۔ جو بھی کارروائی ہوگی وہ ایف بی آر کے سیکرٹری سپریم کورٹ آف پاکستان کے رجسٹرار کے ذریعے سے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوائی جائے گی۔ اگر اس کارروائی میں کوئی چیز ایسی سمجھ آتی ہے جس کے مطابق یہاں جوڈیشل مس کنڈکٹ ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل از خود نوٹس لے سکتی ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مقبول باقر نے معاملہ ایف بی آر کو بھجوانے کی مخالفت کی۔

ماہرین کے مطابق ایف بی آر میں معاملہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔

قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے صدارتی ریفرنس کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ سات دن کے اندر اندر ان لینڈ ریونیو کا متعلقہ کمشنر (جو کہ اپنی پاورز کسی اور نہیں دے سکتا) خود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیگم اور بچوں کو نوٹسز جاری کرے گا۔

انکم ٹیکس کمشنر کے نوٹسز کے بعد قاضی فائز عیسیٰ کی بیگم اور بچوں کو ایف بی آر کو لندن جائیدادوں کے حوالے سے جوابات دینا ہوں گے۔

جوابات کی موصولی کے بعد ایف بی آر کا متعلقہ افسر ان لوگوں کو ایک ہیئرنگ کا موقع دے گا۔ یہ کارروائی 60 دن کے اندر مکمل کرنا ہو گی اور 75 دن کے اندر اس پر حکم جاری کرنا ہوگا اور اس مدت میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔

کمشنر کے آردڑ کے بعد سات دن کے اندر اندر ایف بی آر چیئرمین رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کروانے کا پابند ہوگا۔

جسٹس منصور علی شاہ، مقبول باقر اور یحییٰ آفریدی نے اپنے فیصلوں میں لکھا کہ ریاست کا ہر شہری بشمول ججز کے قانون کے آگے اپنا سر خم کرتے ہیں لیکن انہیں قانون مین جو تحفظ حاصل ہیں یہ بھی تمام ججز کو حاصل ہیں۔