”مولانا حکومت کو کمزور کرکے جا رہے ہیں“

”مولانا حکومت کو کمزور کرکے جا رہے ہیں“

کبھی موقف میں سختی تو کبھی نرمی، کبھی مذاکرات تو کبھی ملاقاتیں۔ یہ ہیں مولانا فضل الرحمان جو مطالبات کی ایک فہرست لیے اسلام آباد کی سڑکوں پر گھوم پھر رہے ہیں۔


مولانا کے لہجے میں نرمی

مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ کی قیادت کرتے ہوئے 31 مارچ کو اسلام آباد پہنچے اور یکم نومبر کو انھوں نے اپنے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان کو استعفیٰ دینے کے لیے دو روز کی ڈیڈ لائن دی۔ جب ڈیڈ لائن ختم ہوئی تو توقع کی جا رہی تھی کہ مولانا فضل الرحمان اپنے نئے لائحہ عمل کا اعلان جارحانہ انداز میں کریں گے مگر اس رات مولانا کی تقریر میں کوئی جذباتی شدت نظر نہیں آئی۔

جے یو آئی کی مرکزی شوریٰ کے طویل اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے اعلان کیا کہ آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں کیا جائے گا مگر یہ بھی نہ ہو سکا۔

تجزیہ نگار مرتضیٰ سولنگی کہتے ہیں کہ  ”حالیہ دنوں میں مولانا کا لہجہ نرم پڑ گیا ہے،  مولانا نے ڈی جی آئی ایس کے بیانات پر سخت ردعمل دیا تاہم اگلے روز معاملات میں بہتری آئی اور اگلے روز  مولانا نے ڈی چوک جانے کی بات نہیں کی۔“

کیا ایکسٹینشن کا مطالبہ بھی شامل تھا؟

مرتضی ٰ سولنگی کہتے ہیں کہ ”مولانا نے مختلف انٹرویوز میں کہا کہ ایکسٹیشن کے معاملے پر ہماراکوئی لینا دینا نہیں، یہ بھی مولانا کے موقف میں نرمی کا ثبوت ہے۔“

مولانا ڈی چوک نہیں جارہے

مرتضی ٰ سولنگی  نے نیادور سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم تو ایک کھلی جگہ بیٹھے ہیں ، ہم ڈی چوک کیوں جائیں یعنی مولانا نے اپنا بیانیہ تبدیل کیاہے۔ مولانا واپسی کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔

ذمہ داری اپوزیشن پر ڈالنا چاہتے ہیں

مرتضی ٰ سولنگی کے مطابق مولانا فضل الرحمان واپسی کی ذے داری متحدہ اپوزیشن پر ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ اب مستقبل کا فیصلہ رہبر کمیٹی کرے گی

رہبر کمیٹی کے پاس اختیار نہیں

مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ اصل کمیٹی چوہدری شجاعت والی ہے، جو معاملات کو طے کرے گی۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ہاتھ میں کچھ نہیں.

مولانا کے ہاتھ کیا آیا؟

جن قوتوں نے مولانا کو اسلام آباد بھیجا ہے کیا انہوں نے مولانا کو دھوکہ دیا ہے۔ مولانا اگر واپس جاتے ہیں   ، تو بھی ان کی سیاسی اہمیت بڑھے گی اور مولانا اپنے کارکنان کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، مولانا کے انداز سیاست نے حکمرانوں کا لب و لہجہ بدل دیا ہے۔ ساتھ میں مولانا نے اپنا پاور شو کامیاب انداز میں کیا ہے جو ان کی سیاسی قوت میں اضافے کاباعث بنے گا۔

اپوزیشن کو کیا ملا؟

مولانا کے مارچ کے باعث اپوزیشن کو کافی فائدہ ہوا، مولانا یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ وہ سڑکوں کے قائد حزب اختلاف ہیں ۔ مولانا نے ایک بڑے سیاسی رہنماء کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔



فضل الرحمان حکومت کیخلاف کیوں مارچ کررہے ہیں؟

25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمان سمیت کئی بڑے ناموں کو شکست ہوئی جس کے فوراً بعد جے یو آئی ف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی و دیگر جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی اور انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا۔

19 اگست 2019 کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) اسلام آباد میں ہوئی جس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین شریک ہوئے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کمر کے درد اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پارٹی دورے کے باعث اے پی سی میں شریک نہیں ہوئے۔

اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں ملک کو مختلف بحرانوں سے دوچار کردیا گیا ہے، اس وقت پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہے اور حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے نتیجے میں ملک کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاشی صورتحال انتہائی ابتر ہے، معاشی بدحالی سے روس ٹکرے ہوگیا اور ہمیں ایسے ہی حالات کا سامنا ہے، ملک میں قومی یکجہتی کا فقدان ہے، ملک کا ہر طبقہ پریشانی میں مبتلا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کل تک ہم سوچ رہے تھے، سری نگر کیسے حاصل کرنا ہے؟ آج ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ مظفر آباد کیسے بچانا ہے؟ عمران کہتا تھا مودی جیتے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا، موجودہ حکمران کشمیر فروش ہیں اور ان لوگوں نے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔

سربراہ جے یو آئی نے الزام عائد کیا کہ ہم عالمی سازش کا شکار ہیں اور ہمارے حکمران اس کا حصہ ہیں، جب تک میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا تو کشمیر کو کوئی نہیں بیچ سکا لیکن میرے جانے کے بعد کشمیر کا سودا کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں اتفاق کیا ہے کہ سب اکٹھے اسلام آباد آئیں گے اور رہبر کمیٹی ایک ہفتے میں چارٹر آف ڈیمانڈ دے گی تاکہ جب اسلام آباد کی طرف آئیں گے تو ہمارے پاس متفقہ چارٹر آف ڈیمانڈ ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمارے لاک ڈاؤن میں عوام آئیں گے، انہیں کوئی نہیں اٹھا سکتا، ہمارے لوگ عیاشی کیلئے نہیں آئیں گے اور ہر سختی برداشت کرلیں گے۔