آسٹریا حملہ: شہریوں کو بچانے کے لیئے جان خطرے میں ڈالنے والے تین مسلمان ہیرو

آسٹریا حملہ: شہریوں کو بچانے کے لیئے جان خطرے میں ڈالنے والے تین مسلمان ہیرو
آسٹریا کے دارالحکومت اور یورپ کے اہم ترین شہر ویانا میں یہ صبح کا وقت ہے۔ گرمی  موسمی معمول سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ دوسرا لاک ڈاؤن لگنے میں چند گھنٹے رہ گئے ہیں اور شہری پھر سے گھروں میں قید ہونے سے پہلے ایک بار اپنے پیاروں کو ریستورانوں اور بارز میں مل رہے ہیں۔ کہیں کوئی بزنس ملاقات ہو رہی اور سب ہی  بیماری کی وجہ سے نافذ ہونے والی قید و بند کے بعد کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ شہر کے مصروف ترین چوک میں بھیڑ بھی ہے۔  قریب ہی مکڈونلڈ کی جانی پہنچانی پیلی اور لال روشنیاں جل رہی ہیں۔ جبکہ اوسامہ حسنہ اسکا مینجر جو کہ ایک فلسطینی نژاد  مسلمان ہے وہ میکڈونلڈ کی طرف بڑھ رہا ہے جب کہ ویانئین کراٹے کے ماہر کھلاڑی دو ترکی نژاد آسٹرین مسلمان اس چوک کو  عبور کر رہے ہیں جو کہ ان کی منزل کی راہ میں پڑتی ہے۔  ایسے میں فضا گولیوں کی تڑتراہٹ سے گونج اٹھتی ہے۔

 

چند ہی لمحوں بعد اس تڑتڑاہٹ میں پریشان حال راہگیروں کی چیخیں بھی شامل ہوگئیں۔ مکڈونلڈ کے مینجر فلسطینی نژاد آسٹرین مسلمان اوسامہ حسنہ اس وقت  چوک میں ہی موجود ہیں وہ چونک کر دیکھتے ہیں کہ ان سے کچھ  20 فٹ دور ایک نوجوان حملہ آوارشہریوں کی جانب اپنی بندوق کیئے شعلے اگل رہا ہے۔ چمکتی دھوپ میں اسکا وحشی پن دیکھنے والوں پر اور بھی عیاں ہو رہا ہے۔ اتنے میں دو پولیس افسر اسکی طرف بڑھتے ہیں  اسنے انہیں بھی نشانے پر لے لیا  ہے اور پلک جھپکتے ہی  ایک گولی کھا کر گرادیا گیا ہے۔ 

اوسامہ حسنہ اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے قدرے تکلیف میں نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہاں ان کے ایک اور ساتھی بھی تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ' جب ہم نے پولیس آفیسر کو گرا ہوا دیکھا۔ تو ہم نے کنکریٹ کے بینچ کے پیچھے پناہ لی اور زخمی پولیس افسر کو کھینچ کر ایک جانب کیا۔ میں نے ہاتھ سے اسکا خون روکنے کی کوشش کی لیکن بے سود رہا جس کے بعد اپنی جیکٹ کی مدد سے ایسا کرنے کی کوشش کی'

وہ کہتے ہیں کہ ایمبولینس پندرہ منٹ کے بعد آئی۔ تاہم ایمبولنس کا عملہ اس وقت صدمے میں تھا اور بد حواس تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ بھی حواس پر قابو نہیں رکھ پا رہے تھے اور پریشان تھے۔ ایسے میں دو نوجوان موقع پر پہنچے اور انہوں نے اس زخمی پولیس افسر کو ایمبولینس تک پہنچانے میں مدد کی۔

کچھ دیر قبل دیکھا جائے تو منظر یہ تھا کہ یہ نوجوان اس حملے سے چند منٹ قبل اسی چوک سے گزر رہے ہیں۔ کراٹے کے ماہر یہ دو ترک نژاد آسٹرین مسلمان ہیں۔ اور انہوں نے اپنے سامنے حملہ ہوتے دیکھا ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ دو پولیس افسر حملہ آور کی جانب بڑھتے ہیں اور ان میں سے ایک گولی کھا کرگرپڑتا ہے۔ ایک شخص گرے ہوئے پولیس افسر کو حملے کی جگہ سے محفوظ جگہ پر کھینچ کر لا رہا ہے اور ایمبولنس آنے پر اس میں منتقل کر رہا ہے۔ لیکن اس منتقلی میں وہاں موجود افراد کو شدید مشکل آرہی ہے۔

وہ یہ سب دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور جائے وقعہ پر پہنچ کر مدد فراہم کرتے ہیں اس سے پہلے کہ وہ زخمی پولیس والے کے پاس پہنچتے انہوں نے ایک معمر خاتون کو بھی جائے وقوعہ سے نکلنے میں مدد کی۔ اس سب کے دوران گولیاں چل رہی ہیں۔

ان میں سے ایک اوزل کہتے ہیں کہ اب بھی انہیں یہ سب درپیش ہو تو وہی کریں گے کہ جو انہوں نے کیا۔ وہ ابھی چند دیر پہلے ویانا کے مئیر سے شکر گزاری اور تعریف کے لئے بلائی گئی ملاقات سے واپس آرہے ہیں۔ میکائل اوزن اس سب کے بارے میں اپنے ہیرو جیسے کارنامے پر بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ تاہم سوشل میڈیا پر انہیں بھی دہشتگردوں کا ساتھی کہا جانے لگا جس پر انہوں نے کھل کر سامنے آنے اور اپنے ساتھ رجب کے ساتھ مل کر اپنے اوپر سے لگے الزامات کورد کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

وہ کہتے ہیں کہ ہم آسٹرین مسلمان ہیں۔ ہمیں اس ملک سے باہر کسی بھی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہم نے وہی کیا جو اس وقت ضروری تھا۔  ہمیں خوشی ہے کہ ہم ایک پولیس افسر اور ایک عورت کو بچا پائے۔

آسٹریا کے ان ہیروز کو اس بترین اقدام کے بدلے میں بھی اسلام مخالف نظریات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اکثر انہیں بھی انہی دہشتگردوں کا ساتھی کہا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ اس سے قبل بھی اسلام و فوبیا کا سامنا کرتے  رہے تھے۔ اوسامہ بتاتے ہیں کہ وہ  اپنے خاندان کے لیئے ایک گھر لینا چاہتے تھے تاہم ویانا کی مقامی حکومت نے اسکی اجازت نہیں دی۔ اسی طرح اوزل اور رجب کو بھی تب شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب ترکی کے صدر طیب اردوان نے ترک ہیروز کی تعریف کی۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ پولیس کی جانب سے ملنے والا بہادری کا نشان وہ زندگی بھر سنبھال کر رکھیں گے۔