اعظم سواتی کا کھلے عام رونا ہمارے اجتماعی ضمیر کے منہ پر طمانچہ ہے

اعظم سواتی کا کھلے عام رونا ہمارے اجتماعی ضمیر کے منہ پر طمانچہ ہے
1972 کی ایک دوپہر کو بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں مشہور برطانوی صحافی سر ڈیوڈ فراسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک 52 سالہ بنگالی شخص ایک تصویر کو دیکھتے ہوئے بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا۔ یہ شخص شیخ مجیب الرحمٰن تھا۔ جس تصویر کو دیکھ کر شیخ مجیب رو رہا تھا وہ تصویر 1971 کی خانہ جنگی کے دوران بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی تصویر تھی۔

وہ سسک سسک کر رو بھی رہا تھا اور بے بسی سے کہہ رہا تھا کہ بے گناہ بنگالیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ہیں، حتیٰ کہ عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ صرف یہی نہیں، بربریت کی انتہا یہ تھی کہ بے حساب عورتوں کو ریپ بھی کیا گیا۔

ایک مسلمان قوم کے ہاتھوں دوسری مسلمان قوم پر، جو تحریک پاکستان کی جدوجہد سے لے کر 1971 تک ان کے ساتھ ایک ملک میں رہی مگر ان سے اس قدر غیر انسانی سلوک کیا گیا کہ سننے والوں کے رونگٹے آج بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔

شیخ مجیب کی سسکیوں کے ساتھ کہیں سے جنرل امیر عبداللہ نیازی کی قہر زدہ آواز سنائی دی کہ 'میں اس حرام زادی قوم کی نسل بدل کے رکھ دوں گا'۔ بنگالی قوم تو اپنی نسل بھی بچا گئی اور اپنا ملک بھی مگر نیازی جیسے کاغذی شیر اپنے ہی ملک اور قوم کے ہاتھوں ذلت اور رسوائی کا نشان بن گئے۔ برطانیہ میں دوران تعلیم انسانی حقوق کے ایک مضمون کے اندر مشرقی پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی پہ غیر ملکی دوستوں کے سوالات پہ سر شرم سے جھک گیا۔ دل اور ضمیر کے اندر سے آواز آ رہی تھی کہ نہیں، نہیں یہ ہم نہیں ہو سکتے۔

مگر آج 5 نومبر کو سینیٹراعظم سواتی کو روتے ہوئے دیکھ کر دل کو یقین ہو چلا ہے کہ وہ ہم ہی تھے۔ 12 اکتوبر کو پاکستان تحریک انصاف کے سوات سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اعظم سواتی کو ان کے گھر سے ایف آئی اے نے اس وقت گرفتار کیا جب انہوں نے پاکستان کے سکیورٹی اداروں پر الزامات لگائے اور ملٹری لیڈرشپ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے فروری 2022 میں پارلیمنٹ سے ایک قانون منظور کروایا تھا جس کے تحت افواج پاکستان پر تنقید کو جرم قرار دیا گیا اور اس جرم کا مرتکب ہونے پر 5 سال کی سزا بھی مقرر کی گئی۔ اعظم سواتی جب سے ضمانت پر رہا ہوئے ہیں وہ مسلسل اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں میڈیا اور عوام کو بتا رہے ہیں۔

پہلے ان کا یہ کہنا تھا کہ ان کو ننگا کر کے مارا گیا ہے اور ان کی تذلیل کی گئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کو ان کے خاندان اور بچوں کے سامنے ننگا کیا گیا۔ اعظم سواتی نے کہا کہ اس واقعے کے بعد وہ زندہ انسان نہیں رہے بلکہ ایک لاش بن کر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے اس سارے واقعے کا ذمہ دار پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ عہدیداران کو ٹھہرایا اور باقاعدہ نام لے کر ان کے بارے میں میڈیا اور عوام کو بتایا۔

پاکستان انسانی حقوق کی پاسداری میں جس شرمناک درجے کو پہنچ چکا ہے وہاں پر اس طرح کا سلوک پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کا معمول بن چکا ہے۔ جس قوم کو آدھا ملک گنوانے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار افراد کے شہید ہو جانے سے کوئی فرق نہ پڑا ہو، اسے کسی شخص کو اس کے گھر والوں کے سامنے ننگا کرنے سے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟ مگر جو آج 5 نومبر کو اعظم سواتی نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا ہے وہ اگر زندہ لاشوں پہ مشتمل قوم کو نہیں جگا سکتا تو پھر قدرت کو ابابیل بھیج کر ہمارے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہیے جو اس نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا تھا۔

آج کی پریس کانفرنس میں دل شکستہ اعظم سواتی نے بتایا کہ ان کی ایک ویڈیو بنائی گئی ہے جس میں ان کو اور ان کی زوجہ کو انتہائی نجی لمحات میں فلمایا گیا ہے۔ وہ یہ شرمناک بات بتاتے ہوئے بلک بلک کر رو رہے تھے کہ ان کو اس ویڈیو کے بارے میں ان کی بیٹی نے بتایا ہے جن کے موبائل فون پر کسی نے یہ ویڈیو بھیجی ہے۔ آج پاکستان کا 66 سالہ سینیٹر اسی طرح بے بسی سے رو رہا تھا جیسے آج سے 49 سال پہلے ڈھاکہ میں ایک بنگالی سیاست دان رو رہا تھا۔

اعظم سواتی اور اس کا خاندان جس کرب سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ اعظم سواتی کا اس طرح میڈیا اور پوری قوم کے سامنے رونا پوری قوم کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ اگر ایک سینیٹر کے ساتھ اس طرح کا سلوک ہو سکتا ہے تو پھر عام آدمی خود کو کتنا محفوظ سمجھ سکتا ہے؟

اس طرح کا واقعہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ نہیں ہو رہا۔ پاکستان کے مقتدر اور طاقتور حلقے کئی دہائیوں سے اس طرح کی وارداتوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی میں اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ اب ماڈرن ٹیکنالوجی کے ذریعے سے بھی تفتیش کی جا سکتی ہے تو پاکستان کے ادارے شرمناک ویڈیوز اور غیرانسانی و غیر مہذب ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے پر ہی کیوں اٹکے ہوئے ہیں؟ ایسے غیر اخلاقی جرائم کا ارتکاب کر کے مقتدر ادارے اپنے شہریوں کو ملک دشمن اور غدار بناتے آ رہے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ مگر اس حمام میں سیاستدان بھی برابر کے ننگے ہیں۔

جب مخالفین کی عزتوں پہ ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو وہ خاموش تماشائی بن کر تماشا دیکھتے رہتے ہیں اور احمقوں کی جنت میں رہتے ہوئے یہ خیال کرتے ہیں جیسے ان کے ساتھ ایسا کبھی بھی نہیں ہو گا۔

شرمناک ظلم کا یہ سلسلہ خاصا طویل ہے اور اس کا شکار ہونے والے اعظم سواتی صاحب پہلی شخصیت نہیں ہیں بلکہ ان سے پہلے بھی بہت سارے سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنان کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا رہا ہے۔ جاوید ہاشمی اور پرویز رشید جیسے سینیئر سیاستدانوں کو پکڑ کر ننگا کر کے مارا پیٹا گیا۔ تحریک انصاف کے شہباز گل نے بتایا تھا کہ دوران حراست ان کے اعضائے مخصوصہ پہ کرنٹ لگایا گیا اور انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کے ادارے ففتھ جنریشن اور ہائبرڈ وار فیئر کی باتیں کرتے ہیں مگر لوگوں کو سبق سکھانے کے لئے انہوں نے زمانہ جاہلیت کا طریقہ کار اپنایا ہوا ہے۔ لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے اٹھا لینا اور پھر ان کی عزتوں کے ساتھ کھلواڑ کرنا بہت معیوب طریقہ کار ہے جس سے نہ تو کسی کی زبان بند کروائی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی کو اپنے مذموم ارداوں کی تکمیل کے لئے استعمال کیا سکتا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس ایسے سلوک سے متاثرہ افراد مزید مزاحمت کے ساتھ ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جب آپ کسی کا غرور زخمی کرتے ہیں تو وہ پھر آپ کو ختم کرنے پر تل جاتا ہے۔ شیخ سعدیؒ نے فرمایا تھا کہ ایک کمزور اور ناتواں بلی جب مجبور اور بے بس ہو جاتی ہے تو وہ شیر پر بھی حملہ کر دیتی ہے۔

ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی خاص جماعت سمجھی جانے والی مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے خلاف جب ایسے ہتھکنڈے اپنائے گئے تو وہ ریاستی اداروں کے خلاف کھڑے ہو گئے اور ان کی مزاحمت نے ان کو ایک نظریاتی جماعت بنا دیا۔ اسی طرح سے تحریک انصاف جو اسٹیبلشمنٹ کے پروں پر پرواز کرتی تھی جب اس کے رہنماؤں کے ساتھ وہی روایتی سلوک کیا جا رہا ہے تو وہ شدید ردعمل کے ساتھ ریاستی اداروں کی دھجیاں اڑاتی ہوئی نظر آرہی ہے اور خود کو ایک انٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی کے طور پر منوا چکی ہے۔ مگر اس میں نقصان کس کا ہو رہا ہے؟ لوگوں کو ننگا کرنے والوں اور شرمناک ویڈیوز والوں سے بھی کوئی یہ سوال پوچھے گا؟

اعظم سواتی کو روتے ہوئے دیکھ کر مرحوم مشاہد اللہ خان بہت یاد آئے جنہوں نے تحریک انصاف سے مخاطب ہو کر اسی سینیٹ میں جس کا اب اعظم سواتی صاحب بھی حصہ ہیں، کھڑے ہو کر کہا تھا کہ ہم تو اپنے حصے کا ظلم برداشت کر رہے ہیں مگر یاد رکھنا کہ ایک وقت آئے گا جب آپ لوگوں کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ مشاہد اللہ خان نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر آپ کے کوئی آنسو پونچھے گا تو وہ بھی ہم جیسے لوگ ہوں گے جو پہلے سے ایسی بربریت کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اب پاکستان کے سیاست دانوں میں ایسی غیرت کہاں بچی ہے جب شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے رانا ثنااللہ کو پارٹی سے نکال دیا تھا کہ انہوں نے چنیوٹ میں مریم نواز کے بارے میں نازیبا گفتگو کی تھی۔

جب نواز شریف مقتدر حلقوں کے خاص مربی ہوا کرتے تھے تو وہ بھی مخالفین کی عزتیں اچھالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ پارلیمنٹ میں شیخ رشید جیسے بدبودار کردار کو بے نظیر بھٹو کی کردار کشی اور ان پر شرمناک جملے کسنے کے لئے کہا جاتا تھا۔ جب بے نظیر بھٹو کی غیر اخلاقی تصاویر کو جہازوں سے گرایا گیا تھا تو تب بی بی شہید نے نواز شریف سے کہا تھا کہ اتنا ہی کریں جتنا آپ اپنی باری پہ برداشت کر سکیں۔

انسانی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جب طاقت نے کمزور طبقوں کو بے توقیر کرنے کی کوشش کی اور پھر کمزور طبقوں نے ردعمل کے طور پر اس طاقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ پاکستان کے فوجی آمر بنگالیوں کو تضحیک کا نشانہ بناتے رہے۔ ان پر نسلی بنیادوں پر جملے کسے جاتے رہے اور انہیں گنوار اور غیر مہذب کہا جاتا رہا۔

بنگالی قوم کے محبوب لیڈروں مولانا بھاشانی، حسین شہید سہروردی، اے کے فضل الحق اور شیخ مجب الرحمٰن کے ساتھ برا سلوک کیا گیا جس سے بنگالیوں کے اندر احساس محرومی پیدا ہوا اور بے توقیری کا احساس بڑھتا چلا گیا۔ ایوب خان کے خلاف صدارتی ریفرنڈم میں مشرقی پاکستان کے بنگالیوں نے جوش و خروش سے محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی مگر ان کے ووٹ پر شب خون مارا گیا۔ الیکشن سے اگلے دن ڈھاکہ کے سب سے بڑے اخبار کی شہ سرخی تھی کہ 10 کروڑ لوگ ہار گئے اور ایک شخص جیت گیا۔ آج اسی سے ملتی جلتی واردات بلوچستان کے ساتھ بھی ہو رہی ہے جس کو مسلسل طاقت سے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر وہ تحریک ایسی ہے جو تھم کے نہیں دے رہی۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو محفوظ رکھنے کے لئے اس فیکٹری کو بند کیا جائے جو قومی لیڈروں، سیاست دانوں اور عام شہریوں کو ننگا کرنے اور بے عزت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ پاکستان جیسے سکیورٹی کے مسائل میں گھرے ہوئے ملک کے لئے ناگزیر ہے کہ عوام اور سیاست دان اس کے اداروں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اس کے لئے اداروں اور مقتدر حلقوں کو لوگوں کی عزت نفس سے کھیلنے سے باز رکھنا ہو گا۔ چند لمحوں کی بے لگام طاقت کے چسکے کے لئے صدیوں کی سزا پانا حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔