پاکستان کے ضلع قصور کی تحصیل چونیاں میں فیضان سمیت 4 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے ملزم سہیل شہزادہ سے تفتیش کے دوران اہم انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق جون 2019 سے لے کر ستمبر 2019 کے درمیان چونیاں میں چار بچے جن میں محمد عمران، فیضان، علی حسنین اور سلمان اکرم شامل ہیں۔ انہیں تین مہینے کے دورانیے میں چونیاں سے اغوا کیا گیا۔ جس کے بعد ان کے ساتھ زیادتی کر کے انہیں قتل کر دیا گیا۔ فیضان کے قتل کے بعد چونیاں کے رہائشیوں نے شدید احتجاج کیا جس کے بعد پولیس نے ملزم کی تلاش شروع کر دی۔ بچوں سے زیادتی کے بعد قتل کے معاملہ کو پولیس نے 2 ہفتوں میں ٹریس کر لیا۔ پولیس نے ملزم تک جانے اور اس کو گرفتار کرنے کے لیے جدید ترین حکمت عملی اپنائی۔
آر پی او شیخوپورہ سہیل حبیب تاجک نے بتایا کہ ملزم کے بارے میں سائنسی انداز میں تحقیقات کی گئیں۔ اس کیلئے ہیومن انٹیلی جنس اور ڈی این اے کا سراہا لیا گیا۔ پولیس نے سب سے پہلے وقوعہ کے پانچ کلو میٹر کے علاقہ کو مارک کیا اور پھر وہاں پر تفتیش شروع کی، مردم شماری کی فہرستیں بھی لیں اور علاقہ کے چودہ سے چالیس سال تک کے آدمیوں کا ڈیٹا حاصل کیا، ایسے افراد کی فہرست بھی علیحدہ کی کہ کون سے مجرم ہیں جن کا جنسی زیادتی کا ریکارڈ ہے۔
پولیس تحقیقات کرتی ہوئی ملزم سہیل شہزادہ تک پہنچی جو سال 2011 میں بھی ایک بچے سے زیادتی کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا اور اس کو پانچ سال کی سزا ہوئی لیکن ڈیڑھ سال بعد رہا ہو گیا۔ پولیس نے بتایا کہ ملزم مضبوط اعصاب کا مالک ہے کہ بڑا جرم کرنے کے باوجود اس سے اعتراف کرانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ملزم کا طریقہ واردات
ملزم کا طریقہ واردات یہ تھا کہ وہ بچوں کو اپنے رکشہ میں سیر کروانے کا لالچ دیتا یا پھر ان کو کہتا کہ اس نے لکڑیاں لینے کیلئے جانا ہے اور ایک ٹیلہ پر بچوں کو لے جا کر زیادتی کا نشانہ بنا ڈالتا، جب بچہ رونے لگتا تو اس کی گردن دبا کر وہیں قتل کر کے گڑھے میں پھینک دیتا اور پھر معمول کے مطابق کام شروع کر دیتا۔