کوئی بھی حکومت ہو، بوکھلا ہی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں سے تو اس ملک میں کوئی نہیں ڈرتا، مگر مولوی تو پھر مولوی ہوتا ہے۔
مثلاً مجھے یاد ہے کہ جب عمران خان نے 14 اگست کے دھرنے کا اعلان کیا تھا، تو احسن اقبال، مشاہد اللّٰہ خان اور دیگر مسلم لیگی کچھ اسی طرح کی باتیں کرتے نظر آتے تھے کہ دیکھیے، 14 اگست تو پوری قوم کے اکٹھے ہونے کا دن ہے، اس تاریخ کو آپ دھرنا دیں گے تو قوم تقسیم ہوگی۔
یہ ایک مضحکہ خیز دلیل تھی۔ جب ایک سیاسی جماعت اس مسئلے کو بنیاد بنا کر احتجاج کر رہی ہو کہ انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے نتائج تبدیل کیے گئے وگرنہ وہ اقتدار میں آ سکتی تھی، تو ظاہر ہے کہ اس جماعت کے مطابق قوم کی اکثریت اس کے ساتھ ہے۔
ہر آدمی اپنی سہولت دیکھتا ہے۔ مثلاً عمران خان اور طاہر القادری صاحب 14 اگست کو اس لئے نکلے کہ چھٹی کا دن تھا۔ منگل کو نکلتے تو جو جوتیاں، پتھر گوجرانوالہ میں برسائے گئے، وہ شائد لاہور ہی میں برس جاتے کیونکہ ظاہر ہے عوام کی زندگی دشوار ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ گوجرانوالہ وہ ورکنگ ڈے پر پہنچے تھے۔
لوگوں نے اپنے کام کاج دیکھنے ہوتے ہیں۔ اسلام آباد تو صرف جیالے ورکر ہی ساتھ جانے تھے۔ اب لاہور کی سوا کروڑ آبادی تھوڑا ساتھ نکل کھڑی ہوتی، وہ بھی خان صاحب کے مخالفین کو صرف ایک سال قبل لاکھوں کی تعداد میں ووٹ دینے کے بعد۔
مولانا صاحب نے بھی اگر اتوار کا دن چنا ہے تو سرکاری دفاتر میں کام کرنے والوں اور عام لوگوں کی سہولت دیکھ کر ہی فیصلہ کیا ہوگا۔ اس پر پہلے تو حال ہی میں وزیراعظم کے معاونِ خصوصی منتخب ہونے کی خبر کی تردید کرنے والے معید پیرزادہ صاحب نے ٹوئیٹ ٹھوک ڈالی کہ 27 اکتوبر کو تو کوئی 71 سال پہلے کشمیر کا بھارت سے الحاق ہوا تھا، تو یقیناً مولانا کی ڈوریاں بھارت ہلا رہا ہے۔ اب شاہ محمود قریشی صاحب درخواست کر رہے ہیں کہ تاریخ تبدیل کر لیں۔
بھئی آدمی اپنی سہولت دیکھتا ہے۔ اپنے ساتھیوں کی سہولت دیکھتا ہے۔
اسی طرح شفقت محمود صاحب کہتے ہیں کہ مدرسے کے طلبہ مولانا کے دھرنے میں آ رہے ہیں لہٰذا ہم مولانا کو اسلام آباد آنے سے روکیں گے۔ اسی طرح کی باتیں لیگی وزرا و مشیران طاہرالقادری کی منہاج القرآن یونیورسٹی سے متعلق کیا کرتے تھے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ مدرسے کے طلبہ انسان ہی ہوتے ہیں۔ چاہے ہمیں پسند نہ ہوں۔ جیسے منہاج یونیورسٹی کے طلبہ ہمیں پسند نہیں۔ مگر تب وہ آپ کے ساتھ تھے، لہٰذا کزن ٹھہرے۔
بات ہو رہی تھی بوکھلاہٹ کی۔ مسئلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن گھبرائی ہوئی اس لئے نہیں تھی کہ عمران خان آ رہا ہے۔ انہیں پتہ تھا کہ عمران خان یونہی نہیں آ رہا۔ کوئی لا رہا ہے۔ شیخ رشید اور فردوس عاشق اعوان کے بیانات بھی کچھ ایسے ہی اشارے دے رہے ہیں۔
اگر ایسا ہے تو یقین جانیے کام میاں صاحب نے بھی بڑے کروائے تھے۔ بجلی اور سڑکیں اٹرم پٹرم۔ مگر جب برا وقت آیا تو اعمال کام نہیں آئے۔ بڑے بھائیوں کی جو نیت تھی، انہوں نے کیا۔ ہاں، مگر دعا۔ لہٰذا آپ کا بھی وقت اگر آ گیا ہے تو اس طرح کے بیانات کہ مدرسوں کی اصلاحات سے ڈر کر مولانا آ رہے ہیں، کسی مدرسے کے طالبِ علم کا ذہن تبدیل نہیں کر سکیں گے۔ اور نہ ہی بڑے بھائیوں کا ذہن ایسے تبدیل ہوتا ہے۔ دماغ پر زور مت دیں۔ بس دعا کریں۔ کیا پتہ کوئی جاوید ہاشمی نکل آئے۔