Get Alerts

اسٹیبلشمنٹ کا پراجیکٹ ن میں سے شین نکالنے پر کام شروع: ’چھوٹے شریف سے نیب میں ملاقاتیں‘

اسٹیبلشمنٹ کا پراجیکٹ ن میں سے شین نکالنے پر کام شروع: ’چھوٹے شریف سے نیب میں ملاقاتیں‘



مسلم لیگ (ن) کے "جلاوطن" قائد ، سابق وزیراعظم نواز شریف کی لندن میں مبینہ سنگین مشکوک سرگرمیوں کا انکشاف ہوا ہے۔  مقتدر حلقوں نے ساری توجہ مریم نواز کی ریلیوں اور عوامی جلسوں پر مرکوز کر دی ہے جبکہ پاور بروکرز نے نیب کی قید میں موجود "چھوٹے شریف" سے پھر سے رابطہ قائم کر لیا ہے اور "نون" میں سے "شین" نکالنے کی بابت اسٹیبلشمنٹ کے مبینہ منصوبے کو نئی شکل دے دی گئی ہے ، جس کی بابت نیب کے زیر؍ تحویل لیگی صدر کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا ہے۔


ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے ساتھ مقتدر حلقوں نے ایک بار پھر رابطہ قائم کرلیا اور ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کی تقسیم کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی اور اے این پی کو "پی ڈی ایم" سے توڑنے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ شہباز شریف نے "بڑے بھائی" کی طرف سے اختیار کی جانے والی جارحانہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ پالیسی اور موجودہ قیادت سمیت فوج کے خلاف شروع کی گئی پراپیگنڈا مہم پر ناخوشی کا اظہارِ کیا ہے۔ شہباز شریف کی طرف سے گزشتہ ہفتے ہائی کورٹ سے اپنی درخواست ضمانت واپس لیتے ہوئے نیب کے ہاتھوں گرفتار ہوجانے کے بعد اسی رات ایک طاقتور شخصیت کے نمائندے ان سے ملاقات کے لئے پہنچ گئے تھے اور مقتدر حلقے شہباز شریف کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں ، جو اپنے بڑے بھائی اور پارٹی قائد نواز شریف کی انتہا پسندانہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ پالیسی اور اپنے تہلکہ خیز بیانات کے ذریعے حساس ادارے پر پے در پے تابڑ توڑ حملوں پر خاصے اپ سیٹ دکھائی دے رہے ہیں ، ذرائع کے مطابق شہباز شریف لیگی قائد کی طرف سے اختیار کی گئی حالیہ سیاسی روش پر ناخوش ہیں۔ 


ذرائع کے مطابق پاور بروکرز اور شہباز شریف کے مابین حالیہ رابطوں میں طے پایا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے پی ڈی ایم کے متوازی پنجاب سے جس سیاسی اور عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا ہے اور پارٹی کی نائب صدر مریم نواز اپنے والد نواز شریف کے انتہائی جارحانہ بیانیہ کو لے کر 16 اکتوبر کے جلسے سے خطاب کرنے جارہی ہیں۔  اس کے لئے عوامی پذیرائی اور پارٹی رسپانس کی روشنی میں شہباز شریف کو "ٹیک آف" کا سگنل دیا جائے گا۔ مریم نواز 16 اکتوبر کی سہ پہر جاتی عمرہ لاہور سے ایک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے گوجرانوالہ کے لئے روانہ ہوں گی اور انٹیلیجنس رپورٹس کے مطابق پورے روٹ پر واقع حلقوں سے منتخب لیگی ایم این اے اور مقامی ایم پی اے صاحبان کو مریم نواز کی ریلی کو ممکنہ حد تک کامیاب اور "جاندار" بنانے کا ٹاسک سونپ دیا گیا ہے جس کے راستے میں پہلا بڑا استقبالی اجتماع شاہدرہ موڑ پر رکھا گیا ہے جبکہ اسی طرح مریدکے اور منڈی بہاؤ الدین سمیت گوجرانوالہ تک کے راستے میں مختلف مقامات پر مریم نواز کے استقبال اور ممکنہ مختصر خطاب کے انتظامات کئے جارہے ہیں۔


ذرائع کا کہنا ہے کہ مقتدر حلقوں اور پارٹی صدر شہباز شریف کی حالیہ انڈر سٹینڈنگ کے مطابق مریم نواز کے 16 اکتوبر کے شو کو اگر مناسب پذیرائی نہیں مل پاتی اور نواز شریف کی ہدایت پر شروع کی جانے والی ان کی مہم momentum نہیں پکڑتی تو شہباز شریف ضمانت کروا کے "باہر" آجائیں گے اور ان تمام
"نون" لیگی رہنماؤں و اراکین اسمبلی کو منظم کریں گے جواس پورے episode میں مریم نواز کی زیرقیادت شروع کی جانے والی لیگی مہم سے لاتعلقی اختیار کرتے اور خود کو دور رکھے پائے گئے۔


واضح رہے کہ گزرے چند ہفتوں کے دوران مسلم لیگ (ن) کے 25 سے 30 ایسے ایم این اے حضرات پر مقتدر حلقوں کی طرف سے کام ہوتا رہا ہے جو اداروں کے ساتھ تصادم اور محاذ آرائی کی پارٹی پالیسی کے مخالف اور ایک طرح سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی کے حامی اور دوسرے لفظوں میں پارٹی صدر شہباز شریف کے ھم خیال سمجھے جاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے اسی منصوبے کی بناء پر "نون" میں سے "شین" نکالنے کی کوششیں جاری تھیں کہ اعلیٰ قیادت کو پتہ چل جانے پر نواز شریف نے ایک دم سے پارٹی کمان سنبھالتے ہوئے خود سیاسی طور پر متحرک ہوکر یہ منصوبہ عین تکمیل کے قریب سبوتاژ کردیا اور ایک جارحانہ مہم شروع کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ پورا سیٹ اپ جارہا ہے۔ پنجاب سے لیگی ایم پی اے جلیل شرقپوری سمیت 5 اراکین اسمبلی کی وزیر اعلیٰ سے حالیہ ملاقات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جبکہ یہ سلسلہ FATF کے لئے اینٹی منی لانڈرنگ بل کی منظوری کے لئے بلائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے متعدد لیگی اراکین کی "پر اسرار" غیر حاضری سے شروع ہوا تھا۔


مقتدر حلقوں نے ذرائع کے مطابق ملک کی سب سے بڑی اور مقبُول اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (نواز) کو "میم" اور "شین" گروپوں میں تقسیم کر دینے کے منصوبے پر ایک بار پھر سے کام شروع کر دیا ہے۔


ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی نتیجہ خیز "ڈیل" کی کوششوں میں ناکام ہوجانے کے بعد مایوسی کی کیفیت میں مقتدر قوتوں کے ساتھ لڑائی لڑنے اور شدید محاز آرائی کی راہ اختیار کی ہے جب انہیں باور کروادیا گیا کہ نہ اب وہ وطن واپس جاسکتے ہیں اور نہ ان کے لئے عدالتوں سے کوئی ریلیف ملنے کا امکان ھے ، ذرائع کے مطابق مقتدر قوتوں کے ساتھ کسی ممکنہ "سمجھوتے" کے لئے نواز شریف کی طرف سے آخری کوشش جنرل (ر) غلام عمر کے بڑے بیٹے ، سابق گورنر سندھ محمد زبیر کے ذریعے ملک کی طاقتور ترین شخصیت کے ساتھ حالیہ ملاقاتوں اور پیغام رسانی کے حوالے سے کی گئی۔


ذرائع کے مطابق اس کے ساتھ ساتھ مقتدر قوتوں کی طرف سے اس امکان کو یقینی بنانے پر توجہ دی جارہی ہے کہ 2 اکتوبر کو لاہور میں "نون لیگ" کے احتجاجی جلسے سے خطاب میں لیگی رہنماؤں کی طرف سے یہ کہتے ہوئے کہ شہباز شریف کو گرفتار کر کے پنجاب کی پگ پر ہاتھ ڈالا گیا ھے" جس طرح نوازشریف کی ہدائت پر ایک بار پھر"جاگ پنجابی جاگ" کا کارڈ استعمال کرنا شروع کردیا گیا ہے ، اس کے ردعمل میں پیپلز پارٹی اور اے این پی کسی بھی مرحلے پر خود کو"پی ڈی ایم" سے باہر نکال لیں۔ 


دریں اثناء ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کے بیرون ملک مقیم سیاست دانوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے اور ان کی سرگرمیاں مانیٹر کرنے کی غرض سے قائم سپیشل سیل کی ایک رپورٹ میں یہ سنگین انکشاف کیا گیا ہے کہ "نون لیگ" کے قائد نواز شریف نے حال ہی میں لندن کی انڈین ایمبیسی میں تعینات ملٹری اتاشی کے ساتھ خفیہ ملاقات کی ہے . رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لندن کے علاقے پارک لین میں نواز شریف کے بیٹے حسن نواز کا دفتر بھی نواز شریف کی خفیہ ملاقاتوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جہاں" مہمانوں" کی آمد کے لئے پچھلا دروازہ استعمال کیا جاتا ہے ، اور یہ کہ گزشتہ سال بھر سے نوازشریف وہاں پوری طرح متحرک اور بھرپور طور پر مصروف رہے ہیں۔