آٹا و چینی بحران کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کابینہ میں ردو بدل کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک اور تحقیق خسرو بختیار کا قلمدان تبدیل کر دیا جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کا استعفیٰ بالآخر منظور کرلیا۔
وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک اور تحقیق خسرو بختیار کا قلمدان تبدیل کرتے ہوئے انہیں وزارت اقتصادی امور دے دی گئی ہے جبکہ ان کی جگہ فخر امام کو وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک و تحقیق بنایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان نے وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی کا استعفیٰ بھی قبول کر لیا ہے تاہم ایم کیو ایم کے امین الحق کو کابینہ میں شامل کیا گیا ہے جنہیں وفاقی وزیر برائے ٹیلی کام مقرر کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر حماد اظہر کو وزارت صنعت کا قلمدان دیا گیا ہے، اس سے قبل وہ اقتصادی امور کے وزیر تھے جبکہ وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور سینیٹر اعظم سواتی کو نارکوٹکس کنٹرول کا قلمدان دیا گیا ہے۔ مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد کو بھی چیئرمین شوگر ایڈوائزری بورڈ اور مشیر صنعت و پیداوار کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے تاہم وہ مشیر تجارت و سرمایہ کاری کے عہدے پر برقرار رہیں گے۔
وزیراعظم ہاؤس کے اعلامیے کے مطابق بابر اعوان وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے پارلیمانی امور ہوں گے جبکہ مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ محمد شہزاد ارباب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ سیکرٹری وزارت تحفظ خوراک و تحقیق ہاشم پوپلزئی کو ہٹاتے ہوئے عمر حمید کو ان کی جگہ تعینات کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ 4 اپریل کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے آٹا و چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لائی گئی تھی۔
اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر خان ترین کو آٹا و چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد چیئرمین ٹاسک فورس برائے زراعت کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کے خلاف مزید کارروائی چینی و آٹا بحران انکوائری کمیشن کی سفارشات کے بعد ہوگی۔
دوسری جانب جہانگیر ترین نے یہ خبر سامنے آنے کے بعد ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا ہے کہ یہ خبر بالکل بھی درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کبھی کسی ٹاسک فورس کا چیئرمین رہا ہی نہیں، کوئی مجھے وہ نوٹیفکیشن دکھا سکتا ہے جس میں میری چیئرمین تعیناتی کا ذکر ہو؟ برائے مہربانی اپنی معلومات درست کرلیں۔
جہانگیر ترین نے تحقیقاتی رپورٹ کو سیاسی اور ذات پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ رپورٹ کے پیچھے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان ہیں، مجھے ٹارگٹ بنانے کے لیے نامکمل رپورٹ جاری کی گئی۔ لاک ڈاؤن کے دوران گھروں سے ملازمین کو تحقیقات کے لیے بلایا گیا، اعظم خان وزیراعظم کے گرد حصار بنا کر مرضی کے فیصلے کر رہے ہیں، کمیشن نے ذمہ دار ٹھہرایا تو چیلنج کریں گے۔
پنجاب کابینہ پر بھی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے جاری آٹا و چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ کا اثر پڑا۔ پنجاب میں وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چوہدری نے استعفیٰ دے دیا۔ صوبائی وزیر خوراک نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات کی جس میں انہوں نے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔
استعفے میں انہوں نے مؤقف اپنایا کہ مجھ پر الزام ہے کہ میں محکمے میں ریفارمز نہیں کر سکا لہٰذا جب تک الزامات کلیئر نہیں ہوتے، حکومتی عہدہ نہیں لوں گا۔
سمیع اللہ چوہدری نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ایسی ہزاروں وزارتیں قربان کرنے کو تیار ہوں۔ چند روز قبل محکمے میں اصلاحات نہ کرنے سے متعلق بے بنیاد الزامات لگائے گئے لہٰذا رضاکارانہ طور پر مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ ہر فورم پر خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کو تیار ہوں۔
بعدازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبائی وزیر خوراک کا استعفیٰ منظور کر لیا جبکہ کمشنر ڈیرہ غازی خان و سابقہ سیکرٹری خوراک نسیم صادق کی عہدے سے علیحدگی کی درخواست بھی قبول کرتے ہوئے انہیں آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) بنا دیا گیا۔
واضح رہے کہ نسیم صادق گندم بحران کے دنوں میں سیکرٹری خوراک تھے اور اس وقت کمشنر ڈیرہ غازی خان کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی سابق ڈائریکٹر خوراک ظفر اقبال کو بھی او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ 4 اپریل کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے آٹا و چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لائی گئی تھی۔ تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں چینی بحران کا سب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الہی کی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔
ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں چینی بحران سے فائدہ اٹھانے والوں میں شہباز شریف کے صاحبزادے سلیمان شہباز کا نام بھی شامل ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے مفصل فرانزک آڈٹ کا انتظار کر رہے ہیں جو 25 اپریل تک کر لیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان نتائج کے سامنے آنے کے بعد کوئی بھی طاقتور گروہ (لابی) عوامی مفادات کا خون کر کے منافع سمیٹنے کے قابل نہیں رہے گا۔