تحریک انصاف کے وائس چیئرمین وسابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بات ہو رہی ہے کہ مراسلہ جعلی ہے یا دفتر خارجہ میں بنوایا گیا۔ میں آج بھی کہہ رہا ہوں کہ ان کا مؤقف درست نہیں، نہ جانے ان سے یہ بیان کون دلوا رہا ہے، اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وہ اسٹیٹمنٹ اور مراسلہ حقائق پر مبنی ہے۔ کہا گیا کہ سفیر کو عجلت میں امریکا سے ہٹا کر برسلز پوسٹ کر دیا گیا۔ وہ سفیر منجھے ہوئے سفارتکار ہیں اور اپنا عرصہ تعیناتی مکمل کر چکے تھے۔ مدت مکمل ہونے کے باعث ان کا تبادلہ ضروری تھا۔ ہم نے سفیر کے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے برسلز تبادلہ کیا۔
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ فارن آفس میں جو سفارتکار، پروفیشنل اور سلجھے ہوئے لوگ ہیں۔ ان کی ایمانداری پر نہ شبہ تھا اور نہ ہوگا۔ اپنے سفارتکاروں کو بلاوجہ انڈرمائن نہ کریں۔ سپریم کورٹ میں کارروائی چل رہی ہے، دلائل جاری ہیں۔ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ آئین شکنی ہو گئی۔ پی ٹی آئی کو آئین کی اہمیت کا احساس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کی پاسداری اور احترام لازم تھا، ہے اور رہے گا۔ آئین سے ہٹ کر کچھ کرنا ہماری حکمت عملی تھی، ہے، نہ ہوگی۔ عدم اعتماد پیش کرنا اپوزیشن کاحق ہے، اسے تسلیم کرتے ہیں۔ اپوزیشن نے عدم اعتماد پیش کی، پروسس ہوتے ہوئے ووٹنگ کیلئے مقرر ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد پر 3 اپریل کو ووٹنگ ہونا تھی۔ ڈپٹی سپیکر کے سامنے جب حقائق آئے تو یہ معمولی چیز نہیں تھی۔ ڈپٹی سپیکر نے حقائق سامنے آنے پر کہا کہ اس کی چھان بین ضروری ہے۔ عدم اعتماد سے انکار نہیں اس پر عمل ہوگا۔ عدم اعتماد منطقی انجام تک پہنچانے میں ڈپٹی سپیکر نے انکار نہیں کیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جو انفارمیشن آئی اس پر تحریک کو ڈس الاؤ کرتا ہوں۔
پی ٹی آئی وائس چیئرمین نے کہا کہ سرعام جو آئین شکنی ہوتی رہی، وفاداریاں تبدیل کی جاتی رہیں۔ ٹکٹوں کے وعدے، ضمیر فروشی،خرید وفروخت کیا آئین اجازت دیتا ہے؟ جو پاکستان کی خود مختاری پر آنچ نہیں آنے دینا نہیں چاہتا، وہ رائے قائم کر چکا ہے۔ رولنگ درست ہے یا نہیں، وہ الگ تفصیل ہے۔ رولنگ صحیح ہے یا نہیں اس کی تشریح اعلیٰ عدلیہ نے کرنی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ چند چیزیں ہمیں ذہن نشین کرنا ہونگی۔ قومی سلامتی کمیٹی کہتی ہے کہ ڈیمارچ کیا جائے۔ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی ڈیمارچ کی سفارش کرتی ہے تو کوئی وجہ تو ہوگی۔ یہ رولنگ کے فیصلوں کے پس منظرمیں چیزیں آتی ہیں۔ جو لیڈر سوال اٹھا رہے ہیں، وہ پارلیمانی سلامتی کمیٹی میں تشریف لاتے۔ سوال کرنیوالے پارلیمانی سلامتی کمیٹی میں مدعو تھے مگر نہیں آئے۔ سپیکر نے سب کو دعوت دی اپوزیشن کیوں نہیں آئی۔ آپ جاتے سوالات اٹھاتے اپنی تسلی کرتے، مگر آپ نہیں آئے۔
یہ اتنا نازک مسئلہ ہے کہ اس سے نظر نہیں چرائی جا سکتی۔ آپ نے عدم اعتماد کرنا ہے اگر آپ کی بات میں وزن ہے تو ہو جائے گا۔ یہاں ڈپلومیٹس لوگوں سے رابطے کرتے ہیں لوگوں سے ملتے ہیں۔ پتہ لگایا جائے کون ڈپلومیس کن کن لوگوں سے ملاقات کی۔ کچھ میٹنگز ملک سے باہر بھی ہوئیں ان کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ بیرون ملک کون ملا اور کس سے ملا یہ بھی دیکھنا ہوگا۔ ڈپٹی سپیکر نے بلاوجہ رولنگ نہیں دی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آئینی ذمہ داری سے پہلے قومی سلامتی کے مفاد میں ان ایشوز پر تہہ تک جانا ہوگا۔ اعلیٰ عدلیہ تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دے سکتی ہے۔