سپریم کورٹ میں ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ پر ازخود نوٹس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ رولنگ میں بظاہر صرف الزامات ہیں، فائنڈنگ نہیں۔ جو ہوا اُسے ہونے دیا گیا تو بہت منفی اثرات ہوں گے۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ جو لوگ غیر ملک سے مل کر تحریک عدم اعتماد لائے اُن کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ قومی اسمبلی میں بظاہر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے جا رہی تھی، جس دن ووٹنگ ہونا تھی اس دن رولنگ آگئی۔ ہماری کوشش ہے کہ معاملے کو جلد مکمل کیا جائے۔
تفصیل کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا لارجر بینچ کیس کی سماعت بدھ کو دوبارہ سپریم کورٹ میں شروع ہوئی۔ پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان اسلامی نظریے کی بنیاد پر بنا۔ پاکستان دوسرے ملکوں سے مختلف ہے۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بیرونی سازش پر خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے۔
اپنے دلائل میں انھوں نے مزید کہا کہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کے پابند ہیں۔ کیا آئین پاکستان کا موازنہ بھارت، آسٹریلیا، انگلینڈ کے آئین سے کیا جا سکتا ہے؟ اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے عدالت میں شعر سناتے ہوئے کہا کہ
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے۔
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ جس برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا، وہ اس کیس میں لاگو نہیں ہوتا۔ کیا سندھ ہاؤس اور لاہور کے ہوٹل میں جو ہوا اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ ارکان اسمبلی کے کردار پر قرآن و سنت اور مفتی تقی عثمانی کا نوٹ بھی دوں گا۔
چیف جسٹس نے بابر اعوان کے دلائل پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہے کیا سپیکر کو اختیار ہے وہ ہاؤس میں ایجنڈے سے ہٹ کر کسی فیکٹ پر جا سکے۔ آئینی طریقہ ہے جسے بالکل سائیڈ لائن کر دیا جائے، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ کو یہ بھی بتانا ہے، عدالتیں قانون کے مطابق چلتی ہیں، اس کیس میں ایک الزام لگایا گیا ہے، ڈپٹی سپیکر نے ایک اقدام کیا ہے، بنیادی چیز یعنی حقائق پر آئیں۔
بابر اعوان نے عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تمام شہریوں پر لازم ہے وہ ریاست کے ساتھ مخلص ہوں، جو باہر سے پاکستان آتے ہیں انہیں بھی وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو پاکستانیوں کو ہیں، دیگر ممالک کے آئین میں ایسے حقوق نہیں دیے گئے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بھی قرار دیا ہے کہ پاکستان سے وفاداری ہر شہری پر لازم ہے، آئین شکنی پر کسی بھی شہری کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔
بابر اعوان نے کہا نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی رولنگ پڑھے بغیر اپوزیشن لیڈر نے پریس کانفرنس کی، یہ چاہتے ہیں عدالت فوری طور پر ان کے حق میں مختصر حکم جاری کر دے، چیئرمن پی ٹی آئی کی ہدایات پر عدالت کے سامنے چند نکات رکھنا چاہتا ہوں۔
تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ درخواست گزار جماعتیں چاہتی ہیں کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا رولنگ میں حوالہ نظر انداز کیا جائے، برطانیہ کی ایک ججمنٹ پیش کی گئی، بتاؤں گا اس کا یہاں کوئی تعلق بنتا ہے یا نہیں، میرا یقین ہے اس مقدمے میں کوئی نکتہ نظرانداز نہیں ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر کسی نےایک لفظ بھی نہیں کہا، ان کا دعویٰ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نزیر تارڑ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک منٹ کے لیے سنا جائے، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو آج اجلاس ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی، پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کی ہدایات پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ انتہائی اہم نوعیت کا کیس زیر سماعت ہے 3 اپریل کو قومی اسمبلی میں جو ہوا اس پر سماعت پہلے ختم کرنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کیا جا رہے ہیں، کہ عدالت معاملے میں تاخیر کر رہی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ آج کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی، ہمیں سب کو سن کر فیصلہ کرنا ہے، یکطرفہ کارروائی نہیں کر سکتے.
مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا معاملہ بھی اسلام آباد کے معاملے کی ایکسٹینشن ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھیں گے کس قانون کے تحت اجلاس ملتوی کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ غدار ان کو نہیں، آرٹیکل 5 کے تحت کیے گئے ایکشن کو کہا گیا ہے، آئین ایسا دستاویز ہے جس کی شقوں کو ملا کر پڑھا جاتا ہے، آرٹیکل 95 کی اپنی تشریح ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان کے منحرف اراکین کے حوالے سے دیئے گئے دلائل پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت سیاسی جماعتوں کے منحرف اراکین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتی اور عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق چلنا ہے۔
وکیل پی ٹی آئی نے عدالت کو بتایا کہ میں وہ سیاسی جماعت ہوں جس کے بائیس اراکین وفاق نے خرید لیے تھے اور میرے چالیس اراکین پنجاب اسمبلی کو ہوٹل میں بند کردیا اور منحرف اراکین کیخلاف کیس کو بھی اسی کیس کیساتھ سنا جائے۔
بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ پارلیمان لوگوں کو سچائی سکھاتا ہے لیکن پارلیمان میں ایسا ہی ہورہا ہے اور بھٹو کا ریفرنس ابھی تک زیر التوا ہے۔
چیف جسٹس نے بابر اعوان کے دلائل پر جواب دیتے ہوئے استفسار کیا کہ سیاست میں فورم کیا ہوتا ہے؟ جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ سیاست میں فورم لوگوں کے پاس جانا ہے، چیف جسٹس نے بابر اعوان سے پوچھا کہ آپ پھر لوگوں کے پاس جائیں کیونکہ ہم نے صرف پارٹی ڈیکلریشن کو دیکھنا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو خود سوچنا چاہیے کہ ادھر سے ادھر نہ ہوں اور سیاسی جماعتیں خود کردار سازی کیوں نہیں کرتیں کیونکہ وہی چہرے کبھی کہیں تو کبھی کہیں نظر آتے ہیں۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آپ دلائل پر فوکس کریں ڈی ٹریک نہ ہوں۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نگران حکومت کے قیام میں ڈیڈلاک ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس لیے آپ کو کہہ رہے ہیں جلدی دلائل دیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے اور ہم وہ فیصلہ دیں گے جو قوم کے مفاد میں ہوگا۔