میں ایک کولیگ کا انتظار کر رہی ہوں۔ نام نہیں لے سکتی۔ خود تو ڈوبی ہوں، اسے نہیں ڈبو سکتی۔ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔ میرا کیا ہے؟ آج ہوں، کل نہیں ہوں۔ نہ کوئی رونے والا نہ کوسنے والا۔ لیکن جس کا کوئی انتظار کرنے والا بیٹھا ہے اس کی زندگی تو اہم ہے نا۔ ہم اپنی سہولت کے لئے اسے 'ص' کے نام سے بلا لیتے ہیں۔ یہ صحیح رہے گا۔
یہ بلوچ جو ہر وقت گلے میں تعویز ڈالے رکھتا تھا کیسے توہین مذہب کے الزام میں مارا گیا؟
کل پرسوں سے سوشل میڈیا پر ایک خبر ہم سب کے دل پسیجے جا رہی ہے۔ این سی اے سے فارغ التحصیل قطب رند کا اندوہناک قتل ابھی تک کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ اس کے کسی دوست کو بھی یہ یقین نہیں آ رہا کہ قطب جیسا لائق آرٹسٹ جو ہمہ وقت اپنی پینٹنگ کی نمائش کے سلسلے میں مصروف تھا کیسے لقمہ اجل بن گیا۔ جیکب آباد سے تعلق رکھنے والا یہ بلوچ جو ہر وقت گلے میں تعویز ڈالے رکھتا تھا کیسے توہین مذہب کے الزام میں مارا گیا۔ ابھی چند دن پہلے ہی تو وہ گھر سے لاہور آیا تھا کہ اپنے کام کی نمائش کرے۔ یہ کیسے ہو گیا؟
شادی شدہ تھا لیکن بیوی کو لاہور کی چکا چوند سے دور رکھتا تھا
ہمارا دوست 'ص' اسی قطب رند کا دوست تھا۔ جب قطب اپنے دوست کے ساتھ پینٹنگ سیکھنے لاہور آیا اور انارکلی کے پاس ایک کمرہ کرائے پر لیا، ص تب سے اسے جانتا ہے۔ کچھ ہی دنوں میں اس نے نیشنل کالج آف آرٹس میں داخلہ لے لیا اور اپنی بلوچ ثقافت کو رنگوں میں ڈھالنے لگا۔ قطب پکا بلوچ تھا۔ شادی شدہ تھا لیکن بیوی کو لاہور کی چکا چوند سے دور رکھتا تھا۔ گلے میں ہر وقت تعویز ڈالے رکھتا تھا، مذہب کے معاملے میں تو کچھ سننے کو تیار نہ ہوتا تھا۔ گٹھا ہوا جسم اور تنومند ڈیل ڈول تھا۔ لیکن حساس تھا۔ اور سب سے محبت کرتا تھا۔ اپنے کام کا تو عاشق تھا۔
پندرہ منٹ میں ہی ایسا کچھ ہو گیا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا
کچھ عرصے سے جیکب آباد مقیم تھا اور اپنی پینٹنگ کی نمائش پر کام کر رہا تھا۔ لاہور اپنے بیٹے اور بھتیجے کے ساتھ آیا کہ بچوں کو شہر بھی گھما دوں گا۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا کہ وہ رات آ گئی۔ بچے سو رہے تھے۔ ریواز گارڈن کے اس تین منزلہ مکان میں نچلی منزل پر مالک مکان رہتا تھا، دوسری منزل پر ایک تھانیدار اور تیسری پر ہمارا قطب۔ سننے میں یہی آیا ہے کہ پندرہ منٹ میں ہی ایسا کچھ ہو گیا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ مالک مکان کے بھائی نے قطب کو لڑائی کے دوران چھت سے دھکا دے دیا۔ باوجود اس کے کہ تھانیدار اسے ہسپتال لے کر گیا قطب رند جان سے جا چکا تھا۔ لاش مکمل مسخ ہو چکی تھی۔ بنیان پھٹی ہوئی تھی۔ یہ بیان کرتے ہوئے ص کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
کاغذوں میں بات آ جاتی تو ایک اور ممتاز قادری وجود میں آ جاتا
باوجود اس کے کہ قاتل نے توہین مذہب کا الزام لگایا ایف آئی آر میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں۔ کیوں نہیں، یہ نہیں معلوم۔ خیر اچھا ہی ہے۔ کاغذوں میں بات آ جاتی تو ایک اور ممتاز قادری وجود میں آ جاتا۔
کیا ہوا کیا نہیں ہوا، ایک خوبصورت فنکار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ابھی تو مشال کا چہرہ نظروں سے نہیں ہٹا تھا کہ قطب بھی سامنے آ گیا۔ بلوچوں کے مسائل پر بنی اس کی پینٹنگز نظروں کے سامنے ہیں۔ خیر ان نگاہوں کا بھی کیا کہیں۔ یہاں تو اس الزام کی نظر اتنی جانیں ہو چکی ہیں کہ اس سکرین کا پردہ عنقریب سیاہ ہونے والا ہے۔ کیا کیجئے؟ کبھی کبھی تو لگتا ہے اس ملک میں اولاد پیدا ہی اس دن کے لئے کی جاتی ہے کہ جوان ہو اور جان سے ہاتھ دھوئے۔ جو دشمنوں کی دہشتگردی سے بچے، ان کو ہم نے اس الزام کی نذر کر دیا۔ خیر یہ سلسلہ کیوں رکنے لگا؟ اسی کی بابت تو اب الیکشن بھی جیتے جاتے ہیں۔ آپ کا کسی سے لین دین کا تنازع بھی ہے تو اس پر توہین مذہب کا الزام لگا ڈالئے۔ نسلیں تک دربدر ہو جائیں گی۔ اور آپ تو ہیرو ٹھہریں گے ہی۔
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
ہمارے مرشد جون ایلیا فرماتے ہیں
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
تو اصل مدعا یہی ہے صاحب۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ بجا ہے۔ اپنوں سے کسے بچائیں گے؟ خیر خطرے کی کوئی بات نہیں۔ سب کو تو سبھی سے خطرہ ہے۔ بچے پیدا کیے جائیں۔ قربان کیے جائیں۔ ص ہو یا ض، قسمت سب کی ایک ہے۔