بھارت کا حالیہ تباہ کن اقدام کشمیریوں کے لیے آزادی کا ایک سنہرا موقع ہے، کیسے؟ تو آئیے جائزہ لیتے ہیں۔ میری مسئلہ کشمیر پر یہ پہلی دفعہ قلم کشائی ہے، تو آئیے کچھ حقائق پر نظر ڈالتے ہیں۔
پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم کے وقت جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان ایک آزاد ریاست تھی لیکن اُس کے مغربی حصے یعنی موجودہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو قبائلیوں نے عسکری طریقے سے کشمیری مہاراجہ سے چھین کر اپنے قبضہ میں کر لیے۔ دوسری جانب مہاراجہ ہری سنگھ کو تشویش ہوئی کہ کہی پاکستان پورا کشمیر مجھ سے نہ چھین لیں، تو مجبوراً اُس نے بھارت سے الحاق کرلیا۔
اس طرح اکتوبر 1947 کو مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کر لیے مگر مہاراجہ نے یہ بات واضح کی کہ الحاق کے باوجود ریاست ہائے جموں و کشمیر ایک آزاد ریاست رہے گی۔ جس کی ریاستی امور، دفاعی امور، قانون سازی اور دیگر امور ریاست جموں و کشمیر کے پاس ہی رہیں گے۔ اسی معاہدے کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت کے لیے بھارت کو اپنے آئین میں ارٹیکل 370 اور 35 A شامل کرنا پڑا۔ اس معاہدے کی اٹھویں شق یہ تھی کہ اس معاہدے کے بعد بھارتی حکومت ریاست جموں و کشمیر کی خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ پر قبضہ نہیں کریگی اور ہر حال میں ریاستی انتظام ریاست کے پاس ہی رہے گا۔
معاہدہ کوئی یک طرفہ چیز نہیں ہوتا بلکہ دو طرفہ اتفاقِ رائے کا نام ہوتا ہے۔ اس معاہدے پر صرف کشمیری مہاراجہ نے دستخط نہیں کیے تھے بلکہ بھارت نے بھی دستخط کیے تھے۔ اس الحاق کے معاہدے میں یہ بھی لکھا تھا کہ معاہدے میں کسی بھی تبدیلی کے لیے ایک اضافی معاہدہ درکار ہوگا جو بھارتی حکومت اور کشمیری ریاست مشترکہ طور پر کریں گے۔ اس خصوصی حیثیت کی مطابق کشمیر کی آزاد حیثیت برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری تصور کیا گیا کہ بھارت کا کوئی بھی شہری ریاستِ کشمیر میں جائیداد خریدنے کا مجاز ہوگا اور ناں ہی مستقل سکونت اختیار کریگا۔ اس معاہدے میں کشمیر کو بھارتی آئین کے تابع کرتے ہوئے یہ واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو کبھی تبدیل نہیں کیا جا سکے گا۔ یہی وجہ تھی کہ الحاق کے اس معاہدے کی وجہ سے بھارتی دستور میں نئے آرٹیکلز شامل کیے گئے اور اسی معاہدے کے تحت بھارت نے کشمیر میں اپنے فوج داخل کی تھی۔
لیکن اب بھارتی حکومت کی جانب سے الحاق کے اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر پسِ پشت ڈالتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت نے الحاق کا یہ معاہدہ توڑ دیا ہے۔ لیکن دوسری جانب پاکستان نے کشمیر اور گلگت بلتستان کو عسکری طریقے سے حاصل کرلیا تھا اور کشمیریوں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا۔ پاکستان کشمیر اور گلگت بلتستان کو نا تو اپنا صوبہ بنا سکتا ہے اور نا ہی اُس کی جغرافیائی حیثیت کو بدل سکتا ہے لیکن اگر ایسا کیا گیا تو یہ معاہدہ شکنی تصور نہیں کی جائے گی کیونکہ پاکستان نے کشمیر کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا، لیکن بھارت کے ہاں معاملہ کچھ اور ہے کیونکہ انہوں نے ریاست ہائے جموں و کشمیر کے ساتھ ایک باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا تھا جس پر دونوں فریقین نے باہمی رضامندی سے دستخط کیے تھے۔
اس معاہدے کو توڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اب قانونی طور پر کشمیر پر بھارتی قبضہ خود بخود غیر قانونی ہوگیا ہے، یعنی یکطرفہ طور پر الحاق کے اس معاہدے سے روگردانی کی وجہ سے کشمیر کے خطے میں موجود تمام تر بھارتی افواج اب فقط قابض فوج بن گئی ہے، اور بھارت کی وہاں موجودگی توسیع پسندانہ عزائم سے عبارت ہوگئی ہے۔ یہاں پر دلچسپ بات یہ سامنے آتی ہے کہ کشمیر میں علیحدگی پسند اور اور حریت رہنما تو ایک طرف، بھارتی الحاق کے حامی اور بی جے پی کے اتحادی رہنما بھی دہلی کے اس یک طرفہ فیصلے کے سخت مخالف نظر آرہے ہیں۔ یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ کشمیر کے سابقہ دو وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ اسی تناظر میں نظر بند کر دیے گئے ہیں اور اس کے علاوہ مقبوضہ وادی میں پچھلے کئی دنوں سے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروس جزوی طور پر معطل ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں سے کسی بھی رہنما یا جماعت کی جانب سے باقاعدہ ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
تاہم پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر انتہائی کمزور اور رسمی سا ردعمل وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کر دیا گیا ہے۔ عمران خان اور حکومت اب تک اس معاملے پر کھل کر بات کرتے دیکھائی نہیں دیے اور عمران خان نے اب تک اس پر ٹویٹ بھی نہیں کیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کشمیریوں کو اپنی بقاء کی جدوجہد اکیلے ہی کرنا ہوگی۔
اب اس وقت ضروری ہے کہ کشمیر، چاہے پاکستانی زیر انتظام والا ہو یا بھارتی زیر انتظام والا ہو، اِن کے باشندوں کو چاہیے کہ اپنی آزادی کا اعلان کر دیں۔ اب اس وقت کم از کم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جہاں پر ایک اسمبلی موجود ہے وہاں پر بھارتی فیصلے کے خلاف ایک مذمتی قرار داد پیش کریں اور اپنی آزادی کا اعلان کریں۔
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں اب اس وقت کیونکہ اسمبلی موجود نہیں ہے تو وہاں کے پارٹی رہنماؤں کو چاہیے کہ اپنے تمام تر جماعتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر بھارت سے آزادی کا اعلان کردیں اور اگر مستقبل میں نئی اسمبلی جب قائم ہو تو اُسے بھی اپنی پہلی قرار داد میں الحاق کا معاہدہ توڑنے پر بھارت سے علیحدگی کا اعلان کردینا چاہیے کیونکہ یہ معاہدہ بھارت نے توڑا ہے۔
اور اگر کشمیری اپنے تمام تر اختلافات ایک جگہ پر رکھ کر اس موقع پر ایک نہ ہوئے اور بھارت الحاق کی معاہدے کو توڑتے ہوئے کشمیر پر مکمل طور پر قابض رہا جیسا کہ فلسطین پر اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے اور بھارت وہاں پر اصل آبادی کی تنوع میں تبدیلی میں کامیاب رہا جبکہ کشمیری رہنما بھارت کا راستہ روکنے میں ناکام رہے تو یہ نہ صرف کشمیری رہنماؤں کا اپنوں پر ظلم ہوگا بلکہ آنے والی نسلیں کبھی بھی اِن رہنماؤں کو معاف نہیں کریں گی۔
بھارت کا یہ تباہ کن اقدام کشمیریوں کے لیے آزادی کا ایک سنہرا موقع بھی ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ عسکری جدوجہد کشمیریوں کے لیے نہایت تباہ کن ہوگی۔ بلکہ متحد، پر امن اور سیاسی جدوجہد اس معاملے کو حل کی طرف بڑھا سکتی ہے۔ اس وقت لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کشمیریوں کو سیاسی طور پر ایک دوسرے سے جڑ جانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت بھی اگر سیاسی مفادات آڑے آئے، لالچ، خدشات یا ڈر سے کام لیا گیا یا کوئی اور معاملات رہے تو اس کا بوجھ اگلے نسلوں کو اُٹھانا پڑے گا۔