مقبوضہ کشمیر: آزادی کے سفر میں ایک اور شہید

مقبوضہ کشمیر: آزادی کے سفر میں ایک اور شہید
کشمیر کی وادی خون سے نہائے آزادی کی طلب گار ہے۔ آزادی کے لئے جدوجہد میں جہاں لاکھوں لوگوں نے قربانی دی وہیں ایک 3 سالہ نواسے کے سامنے اس کے نانا کو بھارتی فوسز نے گولی مار کے شہید کر دیا۔ تین سالہ ننھے عیاد کی تصویر سوپور مقبوضہ کشمیر کی ہے، جس نے دنیا کے ہر اس شخص کو دہلا کے رکھ دیا جس کے سینے میں دل ہے۔

ساٹھ سالہ بشیر احمد خان کو بھارتی درندوں نے گولیاں مار دیں۔ بشیر احمد خان کی خون میں لت پت زمین پہ پڑی لاش پر تین سالہ نواسہ سینے پر بیٹھا مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کی بزدلی پر ماتم کر رہا ہے۔ بشیر احمد خان کے بڑے صاحبزادے فاروق احمد خان نے نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے والد صاحب سویرے کام سے نکلے تھے۔ میرے تین سالہ بھانجے نے ضد کی کہ میں نے بھی نانا کے ساتھ جانا ہے، ننھے عیاد کو اپنے نانا سے بہت پیار تھا۔ بعد میں پولیس سٹیشن سے فون آیا "ایسا ہے کہ بشیر احمد خان کے ساتھ حادثہ ہوگیا ہے آپ ادھر آجائیں جب ہسپتال پہنچے تو وہاں ان کو مردہ حالت میں پایا گیا"۔

پوچھنے پر بتایا کہ ان کو گولی لگی ہے جب ہم جائے وقوعہ پر گئے تو اہل علاقہ کا کہنا تھا کہ "یہاں پہ کراس فائرنگ ہو رہی تھی وہاں کچھ سیکورٹی فورسز مارے گئے تھے پھر ہمارے والد صاحب وہاں سے جارہے تھے سیکورٹی فورسز نے ان کی گاڑی روکی گاڑی سے نیچے اتارا اور ہاتھ اوپر کروا کے ان کو گولی مار دی"۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ پولیس تو کہہ رہی ہے ان کو کسی اور نے مارا ہے۔ جس پر فاروق احمد خان کا کہنا تھا کہ ان کا مؤقف بھی مان لیتے ہیں مگر جب ہم نے بھانجے سے پوچھا شام کو تب بچے کا کہنا تھا کہ بابا کو پولیس والوں نے گاڑی سے باہر نکالا اور بابا کو ڈشہو ڈشہو کر دیا (گولی مار کے شہید کردیا)۔ پولیس سے براہ راست کوئی راست رابطہ نہیں ہوا۔ بہت زیادہ تکلیف ہوئی جب نانا کے لاشے پر نواسہ بیٹھا تھا۔ جب سوال کیا گیا کہ آپ کا کیا مطالبہ ہے اس پر فاروق احمد خان کا کہنا تھا کہ ہم کیا مطالبہ کرسکتے ہیں یہ سیدھا سیدھا کیس ہے بچہ بول رہا ہے پولیس نے گولی ماری ہے مگر ہماری یہاں پہ کون سنے گا۔

فاروق احمد خان کا مزید کہنا ہے کہ عام شہری کے لحاظ سے میرا کہنا ہے بھارت پاکستان اور چائنہ کی جنگ ہو جائے ایک ہی بار ہم یا چین کے ساتھ جائیں انڈیا کے ساتھ یا پاکستان کے ساتھ جائیں اب یہ ختم ہوجائے، ہم اوپر والے سے ایک ہی دعا کرتے ہیں ایک بڑی جنگ لگے اور تینوں میں سے ایک ہی راج کرے۔ بھارتی مظالم سب کے سامنے ہیں، تین نسلیں اسی حالت میں گزر گئی ہیں اور چوتھی نسل اس دردناک زندگی کو جی رہی ہے، جہاں ہماری جان مال اور عزت تک محفوظ نہیں ہے۔ اب تو ہمیں کشمیری بھی نہیں کہا جاتا اب تو ڈومیسائل بھی آ گیا ہے، باہر والے یہاں بسائے جا رہے ہیں اور کشمیریوں کو یا قتل کیا جا رہا ہے یا کشمیر سے نکالا جا رہا ہے۔ ہمیں بولا جاتا ہے تم کشمیری ہی نہیں ہو جیسے فلسطینوں سے بولا جارہا ہے اور باہر سے آنے والے خود کو کشمیری کہیں گے۔

اہلخانہ کے مطابق بشیر احمد خان پیشہ کےلحاظ سے ٹھیکے دار تھے وہ اپنے تین سالہ نواسے عیاد جہانگیر کو اپنے ساتھ کے کر سوپور میں تعمیراتی سائٹ پر جارہے تھے راستے میں سکیورٹی فورسز نے قتل کر دیا۔ اس واقع کی دوسری ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں بھارتی فورسز شہید بشیر احمد کی لاش پر پاؤں رکھے ایسے مغرورانہ انداز میں کھڑے ہیں۔

دہشتگری کی کارروائی میں شہید ہونےوالے نے تو منزل پا لی۔ اہل خانہ کا کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ ہے مگر ایف آئی آر درج ہو چکی ہے۔ یہ مقدمہ اس عدالت میں پیش ہوگا جہاں گواہ مکر نہیں سکتے جہاں سچ کا بول بالا ہوتا ہے، جہاں انصاف کرنے والی ذات اس کائنات کی خالق ہے۔ اب کشمیر کی آزادی کے لئے حتمی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں پہ ہم ملزم کے کٹہرے میں کھڑے ہونے کی بجائے مدعی ہوں۔

کامران اشرف صحافت کے طالب علم ہیں۔