لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ عرفان حمید کیانی سمیت 2 گرفتار ملزمان نے ضمانت کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو عدالت میں اس کیس کا انکشاف ہوا۔ ملزمان کے زیر استعمال الیکٹرانک ڈیوائسز فرانزک کے لیے لیب بھجوا دی گئیں۔ عدالت نے وفاق کی جانب سے ان کیمرا سماعت کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 10اگست تک جواب طلب کرلیا۔ وفاق نے استدعا کی کہ حساس معلومات جوڈیشل ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں اس لیے سماعت ان کیمرا کی جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے ملزمان کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست گزاروں نے کہا کہ ایف آئی اے نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت 18 مئی 2021 کو مقدمہ درج کیا ، ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیرارزم ونگ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا ، پٹیشنرز ایف آئی آر میں نامزد نہیں لیکن نامزد ملزمان کے بیان پر ہمیں 13 جولائی کو گرفتار کیا گیا، گھر پر چھاپہ مار کر الیکٹرانک ڈیوائسز سمیت 39 آئٹمز قبضے میں لی گئیں ، ملزم صفدر رحمان کے جسمانی ریمانڈ کے دوران دیے گئے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، پٹیشنر کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، بیوی اور وکیل سے ملاقات کی بھی اجازت نہیں دی گئی، درخواست میں کہا گیا کہ درخواست گزار کی عمر 69 سال ہے جس کی پانچ نسلوں نے ملٹری میں خدمات انجام دیں۔گرفتار ملزمان میں صفدر رحمان، تنزیل الرحمان، محمد وقار ، محمد اشفاق، محمد طاہر، مجتبی حسین، محمد اشرف، لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ عرفان حمید کیانی اور احمد کیانی بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل حال ہی میں آرمی چیف کی جانب سے جاسوسی کے الزام پر موت اور عمر قید کی سزا دی گئی
اکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو فوجی اور ایک سول افسر پر جاسوسی کا الزام ثابت ہونے پر انھیں دی گئی قید اور موت کی سزاؤں کی توثیق کی ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جمعرات کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق سزا پانے والے افسران میں ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال، ایک سابق بریگیڈیئر راجہ رضوان جبکہ ایک سول افسر وسیم اکرم شامل ہیں۔ بیان کے مطابق یہ افسران غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کو حساس معلومات فراہم کرنے میں ملوث تھے، ان پر جاسوسی کا الزام ثابت ہوا ہے جس کے بعد انہیں سزائیں دی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔ جبکہ سابق بریگیڈیئر راجہ رضوان اور ڈاکٹر وسیم اکرم کو جو کہ ایک حساس ادارے میں بطور انجینیئر تعینات تھے، موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان فوجی افسران کے خلاف جاسوسی کے الزام میں کارروائی کی خبریں سب سے پہلے رواں برس فروری میں صحافی انصار عباسی کی ایک رپورٹ میں سامنے آئی تھیں جس کے بعد پاکستانی فوج کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ان تینوں افسران کے خلاف فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی جاری ہے۔
کس قانون کے تحت ان فوجی افسران کو جاسوسی کے الزام میں سزا دی گئی
اب تک کے قانون کے مطابق ملک میں کوئی بھی آئینی عہدہ، چاہے وہ فوجی ہو یا سول، رکھنے کی صورت میں متعلقہ افسر کو ’آفیشل سیکرٹ ایکٹ‘ پر دستخط کرنا ہوتے ہیں، جس کے تحت وہ عمر بھر کے لیے پابند ہو جاتے ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کی خفیہ معلومات کسی بھی مرحلے پر کسی سے بھی شیئر نہیں کر سکتے۔پاکستانی فوج میں مینوئل آف پاکستان ملٹری لا کے مطابق جاسوسی کی سزا موت یا عمر قید ہے۔ سزا کا تعین فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کرتا ہے، تاہم سزا کا تعین جرم کی نوعیت پر بھی منحصر ہے۔