سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کی گئی نئی ہدایات کے مطابق ایک فرد کے لیے بین الاقوامی درآمدات پر ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کے اخراجات کی مجموعی سالانہ حد 30 ہزار امریکی ڈالر مقرر کی گئی ہے۔ اس ریگولیٹری حد کا اطلاق یکم نومبر سے ہو گا۔
سٹیٹ بینک کی اس ہدایت سے متعلق ردعمل دیتے ہوئے معروف معیشت دان ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کی جانب سے بہت ہی اچھا اقدام ہے اور یہ بہت پہلے کر لینا چاہئیے تھا۔ پاکستان جیسا ملک جہاں دولت کی بہت ہی غیر مساوی تقسیم ہے، وہاں 1 فیصد سے بھی کم لوگ ہوں گے جو سال میں 30 ہزار ڈالر سے زیادہ کی خریداری کرتے ہیں۔ لہٰذا حکومت کے اس فیصلے کا اطلاق دولت مند اشرافیہ پر ہوتا ہے جو کل آبادی کا محض ایک فیصد حصہ بنتی ہے۔
نیا دور سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ 1 فیصد لوگ دوسرے ملکوں سے گاڑیاں اور دیگر پر تعیش اشیا امپورٹ کرتے ہیں جس کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی ویلیو کم ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں انتہائی ضروری اشیا جیسے ایندھن، دوائیں وغیرہ امپورٹ کرنے کے لیے حکومت کو زیادہ پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں کیونکہ روپے کی ویلیو کم ہو چکی ہوتی ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ اقدام ایکسچینج ریٹ کو مستحکم رکھنے کے لیے اٹھایا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ ملکی حالات میں ہمیں مقامی طور پر دستیاب اشیا خریدنے پر اکتفا کرنا چاہئیے تاکہ روپے کی ویلیو کو دباؤ سے بچایا جا سکے۔