Get Alerts

خدیجہ صدیقی کو انصاف ملا کیونکہ وہ لڑی۔ ان کا کیا جو لڑ نہیں سکتے؟

خدیجہ صدیقی کو انصاف ملا کیونکہ وہ لڑی۔ ان کا کیا جو لڑ نہیں سکتے؟
23 سالہ خدیجہ صدیقی قانون کی طالبہ تھی جو 2016 میں اپنے ساتھی طالبعلم کے خنجر کے متعدد وار سہہ کر بھی معجزانہ طور پر بچ گئی۔ آخر کار خدیجہ نے اپنے اذیت رساں کو اس الزام میں گرفتار ہوتے دیکھ ہی لیا۔ لیکن قانونی نظام کو خدیجہ کی اذیت اور پکار پر کان دھرنے کیلئے تین سال کا عرصہ لگا۔ اس سے پہلے ماتحت عدالتوں میں اس کا مقدمہ التوا کا شکار رہا۔ جب مین سٹریم میڈیا نے خدیجہ کے مقدمے کو کوریج دی تو حکام کو اس پر کارروائی کرنے کا خیال آیا۔ میڈیا اور سول سوسائٹی ہر ناانصافی اور مقدمے پر نگاہ نہیں رکھ سکتے۔ کیا اب وقت آن نہیں پہنچا کہ عدالتی نظام اپنا کام میڈیا یا سول سوسائٹی کی یاد دہانیوں کے بجائے خود سے کرے؟

خدیجہ کیس کا مجرم شاہ حسین ایک بااثر وکیل کا بیٹا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وکلا برادری اسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔ اس کے وکلا نے عدالتوں میں مقدمہ لٹکانے کیلئے تاخیری حربے استعمال کیے اور سارے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کیں۔ مقدمے کی سماعت کے دوران ڈیفنس کونسل کے وکلا نے خدیجہ کی نجی زندگی کی تصاویر کو بھی بطور ثبوت عدالت میں پیش کیا۔ اور انہیں اس عمل پر ملامت یا سرزنش کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس کے بجائے ماتحت عدالتوں کے جج حضرات نے شاہ حسین کے وکلا کے ساتھ نرم رویہ برتا کیونکہ اس کے وکلا جج حضرات کے خلاف بھی ڈرانے دھمکانے کے حربے استعمال کر رہے تھے۔ ایک موقع پر متعدد وکلا عدالت میں داخل ہو گئے اور شاہ حسین کے حق میں نعرے بازی بھی شروع کر دی۔

https://www.youtube.com/watch?v=PgSSi5qlHbE

جب جولائی 2017 میں جوڈیشل مجسٹریٹ نے شاہ حسین کو مقدمے میں مجرم قرار دیا تو میڈیا نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور اپنی توجہ اس مقدمے سے ہٹا لی۔ یہ وہ وقت تھا جب بااثر وکیل اور اس کے خاندان نے ایک بار پھر خدیجہ اور اس کے خاندان پر مجرم کو معاف کرنے کیلئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ شاہ حسین نے اپنی سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور وہاں سے بری ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ پاکستان میں تشدد کا شکار ہونے والی زیادہ تر خواتین کے برعکس خدیجہ ثابت قدمی سے کھڑی رہی اور مجرم کے وکلا کی جانب سے اپنی کردار کشی اور من گھڑت کہانیوں کو برداشت کرتی رہی۔

خدیجہ نے ان بااثر قوتوں کے آگے جھکنے سے بھی انکار کر دیا جو اسے شاہ حسین کو معاف کرنے کیلئے کہہ رہی تھیں۔ وہ لوگ جو خدیجہ پر اپنے حملہ آور کو معاف کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہے تھے ان میں محض وکلا برادری سے تعلق رکھنے والے چند سرکش عناصر ہی شامل نہیں تھے بلکہ خدیجہ کو اس وقت کے گورنر پنجاب رفیق رجوانہ کی جانب سے بھی ایک پیغام موصول ہوا جس میں گورنر پنجاب نے خدیجہ سے درخواست کی تھی کہ وہ شاہ حسین کو معاف کر دے کیونکہ وہ اب سبق سیکھ چکا ہے۔ اگر خدیجہ کا تعلق نسبتاً قدامت پسند خاندان یا دیہی علاقے سے ہوتا تو شائد وہ بھی پاکستان میں تشدد کا شکار ہونے والی دیگر خواتین کی مانند اس مقدمے کی پیروی سے پیچھے ہٹ گئی ہوتی۔



سپریم کورٹ کا شاہ حسین کی بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار دینا ایک انتہائی مثبت پیش رفت ہے لیکن اس کا سہرا خدیجہ صدیقی کے سر جاتا ہے نہ کہ ہمارے عدالتی نظام کے سر۔ کیونکہ اگر خدیجہ صبر سے کام لیتے ہوئے ثابت قدم نہ رہتی تو مجرم کے وکلا عدالت کو خدیجہ کی کردار کشی کے ذریعے گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔ شاہ حسین کا باپ اپنا سارا اثرو رسوخ اپنے بیٹے کو آزاد کروانے کیلئے کیلئے لگا دیتا۔

بدقسمتی سے عدلیہ ابھی بھی صنفی بنیادوں پر امتیازی فیصلے دینے کے معاملے میں حساس نہیں ہوئی۔ ہمارا قانونی نظام اس وقت ان بے کس خواتین کے ساتھ کھڑا ہونے میں ناکام ہو جاتا ہے جب ان کی ذات پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ پاکستان میں ظلم کا شکار ہونے والی خاتون کو دوش دینے کے رجحان کو مد نظر رکھتے ہوئے تشدد کا شکار خاتون کو عدالتوں سے رجوع کرنے کیلئے بے پناہ حوصلہ اور ہمت درکار ہوا کرتے ہیں۔ کیونکہ متاثرہ خواتین شہریوں کو نظام نے شاید ہی کبھی انصاف مہیا کیا ہو۔ جب خواتین تشدد، جنسی ہراسانی یا آبرو ریزی کی شکایات لیکر سامنے آتی ہیں تو اس کا دوش ان پر ہی لگایا جاتا ہے۔



اس لئے خدیجہ کی یہ لڑائی ہرگز بھی معمولی نہیں تھی۔ وہ نہ صرف خامیوں سے بھرے ہوئے نظام کے خلاف برسر پیکار تھی جس میں بااثر طبقات قانون کی گرفت میں نہیں آتے بلکہ اسے اس معاشرے سے بھی لڑنا پڑا جو تشدد کا شکار خواتین کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہوئے ان کی عزت نفس مجروح کرتا ہے اور اس طرح کے واقعات میں ملوث مردوں کو کلین چٹ فراہم کر دیتا ہے۔ زیادہ تر خواتین میں دباؤ کے خلاف مزاحمت کرنے کی قوت موجود نہیں ہے اور کچھ خواتین کو اس بنیاد پر ان کے اپنے ہی خاندان کی جانب سے جرم کی رپورٹ درج کروانے سے منع کر دیا جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے ان کی "بے عزتی" ہو جائے گی۔

ایسی خواتین جو سماجی دباؤ کے خلاف مزاحمت نہیں کر سکتیں یا بااثر افراد کی جانب سے طاقت کے غلط استعمال کے آگے ڈٹ نہیں سکتیں، ان کیلئے ہمارے عدالتی نظام کو اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ عدالتوں کو صنفی مساوات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے تاکہ یہ خواتین کے انسانی حقوق کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔

مصنفہ نیا دور سے منسلک ہیں، کاؤنٹر ٹیرر ازم، انسانی حقوق اور اظہار کی آزادی ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ ٹوئٹر پر @ailiazehra کے ہینڈل پر اور ailiazehra2012@gmail.com پر ای میل کے ذریعے ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے