Get Alerts

پشاور دھماکے میں ٹی این ٹی دھماکا خیز مواد کے استعمال ہونے کا انکشاف

پشاور دھماکے میں ٹی این ٹی دھماکا خیز مواد کے استعمال ہونے کا انکشاف
پشاورپولیس لائنز دھماکےکی تفصیلات سامنے آگئیں۔ خودکش حملے میں ٹرینیٹروٹولیوین (TNT) دھماکا خیز مواد کے استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق خود کش بمبار نے مسجد کے پُرانے حصے میں دھماکا کیا۔ خودکش حملے میں ٹی این ٹی دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔مسجد کے پُرانے حصے میں کوئی پِلر موجود نہ تھا اور دیواریں صرف اینٹوں کے سہارے کھڑی کی گئی تھیں۔دھماکے کی وجہ سے دیواریں اور چھت گرنے سے زیادہ تر شہادتیں ہوئیں۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ دھماکے میں ملوث نیٹ ورک تک پہنچ چکے ہیں۔ اور خود کش بمبار اور نیٹ ورک کی تفصیلات بھی حاصل کرلی گئی ہیں۔ جب کہ تحقیقاتی ادارے نیٹ ورک تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔

پولیس نے متعدد مشکوک افراد کو بھی حراست میں لیا ہے جن سے تفتیش جاری ہے تاہم ابھی تک کوئی باقاعدہ گرفتاری ظاہر نہیں کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ 30 جنوری کو پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد کے اندر خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں 84 افراد شہید ہوئے جن میں زیادہ تر پولیس اہلکار تھے۔

دھماکا تقریباً دوپہر کے ایک بج کر 40 منٹ پر  وقت ہوا جب مسجد میں نماز ظہر ادا کی جارہی تھی۔دھماکا اس قدر شدید تھا کہ اس سے مسجد کی چھت گر گئی اور ایک حصہ شہید ہوگیا۔

واقعے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ دھماکے کی اطلاع کے فوری بعد پشاور کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔

سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ دھماکا خود کش تھا اور حملہ آور نمازیوں کے ساتھ پہلی صف میں موجود تھا۔ نماز شروع ہوئی تو حملہ آور نے خود کو اُڑا لیا۔

دھماکا پشاور کے ریڈ زون میں ہوا جہاں گورنر ہاؤس سمیت اہم سرکاری عمارتیں اور دفاتر موجود ہیں۔ مسجد کے عقب میں سی ٹی ڈی کا دفتر بھی موجود ہے۔

31 جنوری کو پشاور پولیس لائن دھماکے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی گئی تھی جس کے مطابق پولیس لائن میں ہونے والا دھماکہ خود کش تھا۔ جائے وقوعہ سے خودکش حملے کے شواہد ملے۔

ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا کہ دھماکے کے بعدمسجد کے پلر گرنے سے چھت گری جس سے نقصان زیادہ ہوا۔

پولیس لائن گیٹ، فیملی کوارٹرز سائیڈ کی سی سی ٹی وی فوٹیجز پر تحقیقات جاری ہیں تاہم سیکیورٹی لیپس کے حوالے سے اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کی گئی۔