طالبان اس سے پہلے صوبہ خیبر پختون خوا میں تو سرگرم تھے مگر کوئٹہ میں ہونے والا خودکش دھماکہ پاکستان کے لیے نیا چیلنج ہے۔ تحریک طالبان اب ماضی کی طرح کمزور نہیں رہی بلکہ انہیں افغانستان کی صورت میں محفوظ مرکز مل گیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان لبریشن آرمی اگرچہ دونوں حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں اور دونوں میں کچھ نہ کچھ تعاون ضرور ہوگا مگر یہ تعاون خفیہ طور پہ ہوگا۔ دونوں تنظیمیں اعلانیہ طور پر مل کر کام نہیں کر سکتیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو طالبان کے لیے افغانستان میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہ کہنا ہے کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی طاہر خان کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ حکومتی اہلکاروں کی آخری ملاقات 6 جولائی کو ہوئی تھی جس کے بعد سے طالبان کے ساتھ ریاست پاکستان کے کوئی مذاکرات نہیں ہوئے۔ ممکن ہے کہ اس دھماکے کے ذریعے طالبان مستقبل میں ہونے والے ممکنہ مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتے ہوں۔ طالبان کے خلاف آپریشن ایک مشکل آپشن ہے۔ پاکستان کے پاس واحد آپشن یہ ہے کہ ہم افغان طالبان سے کہیں کہ وہ پاکستانی طالبان کو حملے کرنے سے روکیں کیونکہ پاکستانی طالبان کو اگر افغان طالبان منع کریں گے تو وہ باز آ جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے سوات اور باڑہ میں بہت بڑی تعداد میں باہر نکل کر پیغام دے دیا ہے کہ وہ اب کسی پہ اعتبار نہیں کریں گے۔ عوام کو شکوک ہیں کیونکہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ افغانستان کی نظروں میں ہماری گڈول نہیں ہے۔ ہماری پوزیشن کو وہ بھی شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اسی لیے افغان طالبان پاکستانی طالبان کو ان حملوں سے منع نہیں کریں گے۔
ممتاز کالم نگار مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ جنرل فیض حمید نے وزیراعظم عمران خان کو انگلیوں پر نچایا اور ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ ساتھ ملک کے وزیراعظم کے اختیارات بھی استعمال کیے۔ جنرل فیض کا اپنا کیریئر خراب نہیں ہوا بلکہ آرمی چیف بننے کے چکر میں جاتے جاتے انہوں نے عمران خان کا کیریئر ختم کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے جنرل باجوہ، جنرل فیض اور لندن میں بیٹھا نواز شریف؛ یہ تینوں ڈبل گیم کر رہے تھے۔ اس طرح کی خبریں آ رہی ہیں کہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کا الحاق ہو گیا ہے اور آج کوئٹہ کا خودکش حملہ اسی الحاق کا نتیجہ ہے۔
معروف صحافی نیر علی کا کہنا تھا کہ عمران خان اور جنرل فیض کی آپس میں شاید اسی لیے بھی زیادہ بنتی تھی کیونکہ دونوں بات کر کے مکر جاتے تھے۔ فوج اگر اپنا اعتماد بحال کرنا چاہتی ہے تو اسے غیر سیاسی رہنے والی بات پر قائم رہنا ہوگا۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ عمران خان آج والے ٹویٹ کے ذریعے آرمی چیف سے نئے دور کے لیے نئی نیپیاں مانگ رہے ہیں۔ یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ آج کی ملاقات میں عمران خان نے صدر کے ذریعے آرمی چیف کو پیغام دیا کہ ہمارا جھگڑا آپ کے ساتھ نہیں ہے بلکہ سابق آرمی چیف کے ساتھ ہے۔ صدر نے کہا کہ عمران خان آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں تو آرمی چیف نے انکار کر دیا کہ عمران خان نہ اس وقت ملک کے سربراہ ہیں اور نہ ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ ہے تو میرا ان سے بات کرنا نامناسب ہے۔
میزبان رضا رومی کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے پشتونوں کو ہمیشہ چارے کی طرح استعمال کی ہے اسی وجہ سے پشتون نوجوان ریاست پاکستان پر اعتماد نہیں کرتے۔