عسکریت پسند کمانڈر مخلص محسود TTP کو چھوڑ کر حافظ گُل بہادر گروپ میں شامل

عسکریت پسند کمانڈر مخلص محسود TTP کو چھوڑ کر حافظ گُل بہادر گروپ میں شامل
کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے ایک سینیئر کمانڈر مخلص یار محسود نے باضابطہ طور پر ٹی ٹی پی سے راہیں جدا کر لی ہیں اور حافظ گُل بہادر گروپ (HGB) نامی ایک اور عسکریت پسند تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ باخبر ذرائع نے دی فرائیڈے ٹائمز کو اس پیش رفت کی تصدیق کی ہے۔

یہ تحریک طالبان پاکستان کے لئے ایک سنگین دھچکہ ہے تاہم ٹی ٹی پی نے باضابطہ طور پر تردید کی ہے کہ مخلص یار محسود نے ٹی ٹی پی کو چھوڑ دیا ہے۔

حافظ گُل بہادر گروپ جسے HGB نیٹ ورک بھی کہا جاتا ہے، پاکستانی فوج کا اتحادی سمجھا جاتا تھا اور شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب شروع ہونے تک اسے 'اچھے طالبان' کا نام دیا جاتا تھا۔ مذکورہ آپریشن کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں مقامی لوگ افغانستان کی طرف بھاگنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ حالیہ وقت تک HGB گروپ کا اثر و رسوخ شمالی وزیرستان تک مرکوز تھا لیکن اس تازہ ترین پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گروپ اپنا دائرہ اثر جنوبی وزیرستان تک پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اگر اس خبر کی تصدیق ہو جاتی ہے تو پھر پاکستان کی قومی سلامتی پر بھی اس کے سنجیدہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ مخلص محسود کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ انہیں حافظ گل بہادر گروپ کی جانب سے جنوبی وزیرستان میں اپنا کمانڈر تعینات کیا گیا ہے۔ ان کے زیر اثر خاص طور پر وہ علاقے آتے ہیں جہاں محسود قبیلہ زیادہ بااثر ہے۔

مخلص یار محسود نے ٹی ٹی پی جنہیں پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے، کو چھوڑ دیا ہے۔ ان کے ساتھ 300 کے قریب ایسے جنگجو بھی شامل ہیں جو اس کے وفادار ہیں اور یہ سبھی لوگ اب عسکریت پسند تنظیم حافظ گل بہادر کے 'طالبان گروپ' کا حصہ بن چکے ہیں۔ باخبر ذرائع نے اس پیش رفت سے متعلق دی فرائیڈے ٹائمز کو آگاہ کیا۔

مخلص محسود کون ہے؟

مخلص محسود تحریک طالبان پاکستان کے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کا قریبی ساتھی تھا اور نومبر 2013 میں ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد اس نے کالعدم تنظیم سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ ٹی ٹی پی میں حکیم اللہ محسود کی جگہ ملا فضل اللہ نے لے لی تھی۔ اطلاعات کے مطابق اس کے بعد مخلص محسود آزادانہ طور پر کام کرتا رہا۔ ایسی بھی خبریں آئیں کہ افغانستان اور پاکستان کے علاقوں میں سرگرام عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کی فرنچائز اسلامی ریاست صوبہ خراسان ( ISKP) کے ساتھ بھی مخلص محسود وابستہ رہا۔

جولائی 2020 میں مخلص محسود نے 'حکیم اللہ محسود' گروپ کے جنگجوؤں کے ساتھ دوبارہ ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کر لی اور ٹی ٹی پی کے موجودہ امیر مفتی نور ولی محسود کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔

10 جولائی کو جاری کردہ اپنے بیان میں تحریک طالبان پاکستان کا کہنا تھا کہ کوہاٹ کے سابق ولی یا فرضی گورنر اور ڈیرہ اسماعیل خان کے لئے تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ انٹیلی جنس چیف مخلص یار محسود اور تحریک طالبان پاکستان کے جنوبی علاقے کے فدائین یا خودکش بمبار یونٹس کے سربراہ شیر زمان عرف 'مولوی مخلص محسود' ابھی بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ وابستہ ہیں اور تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ امیر کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں۔

تاہم تحریک طالبان پاکستان کے بیان میں یہ بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ مخلص محسود نامی جنگجو اسلامی ریاست صوبہ خراسان ( ISKP) کا ایک عسکریت پسند ہو سکتا ہے جو حافظ گل بہادر گروپ (HGB) میں شامل ہو گیا ہو کیونکہ اسی طرح کے ایک جنگجو کو ایک چھاپے کے دوران افغان طالبان نے گرفتار کیا تھا۔

اپنے بیان میں تحریک طالبان پاکستان نے عسکریت پسندوں اور صحافیوں پر زور دیا کہ وہ تنظیم سے انحراف اور دھڑے بندی کی 'افواہوں' پر دھیان نہ دیں کیونکہ ایسی افواہوں سے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے حوصلے پست ہوتے ہیں۔

ٹی ٹی پی ایک بار پھر دھڑوں میں بٹ گئی؟

حالیہ پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف دھڑوں اور ان عسکریت پسند کمانڈروں پر تحریک طالبان پاکستان کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے جنہیں پچھلے کچھ سالوں کے دوران تنظیم نے اپنی جانب راغب کیا تھا۔
اس سے قبل آپریشنل تقرریوں کے معاملے پر اختلاف اور ایک غیر محسود شخص (ملا فضل اللہ) کو ٹی ٹی پی کا سربراہ یا امیر بنائے جانے پر اختلافات کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ مگر اس وقت افغان طالبان کے توسط سے پاکستانی حکومت کے ساتھ رابطوں پر ٹی ٹی پی کو اپنے رینک اینڈ فائل کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

خراسانی گروہ میں بے چینی کی لہر

' خراسانی گروپ' یا جماعت الاحرار (JuA) کے دھڑے کے ارکان بھی مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی دھڑے سے دوری اختیار کر رہے ہیں لیکن باخبر ذرائع کے مطابق انہوں نے فی الحال کھلے عام اس گروپ سے اپنی وابستگی ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔

گذشتہ اگست میں افغانستان کے مشرقی صوبہ خوست میں عمر خالد خراسانی کی پراسرار ہلاکت کے بعد سے ' خراسانی گروپ' کے جنگجوؤں اور ٹی ٹی پی کی مرکزی شوریٰ یا فیصلہ ساز ادارے کے مابین شدید اختلافات سامنے آئے ہیں۔

کنڑ میں موجود ان کے ٹھکانوں پر مشتبہ پاکستانی کارندوں کی طرف سے مسلسل بمباری ان اختلافات کی وجہ بتائی جاتی ہے، جو تقریباً ایک سال سے جاری ہیں۔

ذرائع نے زور دے کر بتایا کہ ' خراسانی گروپ' کے ٹی ٹی پی جنگجو بھی تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کی جانب سے گذشتہ چند ماہ میں لیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کر رہے۔

تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان کے اندر منتقل کرنا

ایسی خبریں بھی آ چکی ہیں کہ اگر افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کے سرحدی علاقے سے دور افغانستان کے اندرونی علاقوں کی جانب نقل مکانی پر مجبور کرتے ہیں تو تحریک طالبان پاکستان کے دھڑے یا گروہ داعش میں شمولیت اختیار کرنے پر بھی غور کر سکتے ہیں جسے اسلامی ریاست صوبہ خراسان ( ISKP) بھی پکارا جاتا ہے۔

اپنے خاندانوں اور قبائل کے ساتھ پاکستان کی سرحد کے قریب رہائش پذیر ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو بھی اپنی رہائش گاہیں سرحدی علاقوں سے دور منتقل کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ افغان طالبان نے بارہا پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو پاکستان کی سرحد سے مزید دور منتقل کر دیں گے۔ تاہم ٹی ٹی پی نے اپنے جنگجوؤں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ثابت قدم رہیں اور کسی دوسرے مقام پر منتقل ہونے سے پہلے ٹی ٹی پی کی شوریٰ کے احکامات کا انتظار کریں۔

کابل اور اسلام آباد کے مابین ہونے والے ایک معاہدے کے مطابق ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو پاکستان کی سرحد سے دور افغانستان کے دیگر حصوں میں منتقل کیا جائے گا۔ افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران اس منتقلی پر اتفاق ظاہر کیا۔

اس وقت ہزاروں پاکستانی طالبان اور ان کے خاندان افغانستان کے مشرقی صوبوں خوست، پکتیا اور کنڑ میں رہ رہے ہیں۔ پاکستان ان پر پاک افغان سرحد کے نزدیک اور پاکستان کے اندر بالخصوص قبائلی علاقوں میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کا الزام لگاتا ہے۔ ان میں سے بہت سے خاندان 2014 میں اس وقت افغانستان منتقل ہو گئے تھے جب پاک فوج نے آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تھا۔