’’ایک سخت رد عمل امریکہ کا منتظر ہے‘‘

’’ایک سخت رد عمل امریکہ کا منتظر ہے‘‘
قاسم سلیمانی ایرانی فوج کے اعلی ترین عہدے دار تھے جو مشرق وسطی کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی جاندار کردار کے حامل تھے۔ در حقیقت آج مشرق وسطی میں انہیں طاقتور ترین حیثیت سمجھا جاتا تھا۔ امریکی خفیہ ایجنسی کے مطابق سلیمانی امریکی فوجیوں اور خطے میں امریکی مفادات پر حملوں کی وسیع پیمانے پر منصوبہ بندی کر رہے تھے لہذا انہیں ختم کرنا ضروری ہو گیا تھا۔

جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کے لئے  ڈرون کیو نائن ریپر(Q9 Reaper) استعمال کیا گیا جو 2007 سے زیر استعمال ہے اور معنی خیز صلاحیتوں کا حامل ہے۔ سلیمانی اور ان کے پیچھے آنے والے ڈپٹی کو قتل کرنے کے لئے یہ ڈرون قطر میں واقع سینٹکام (Centcom)  کے بیس سے داغا گیا جسے بارہ ہزار کلومیٹر دورناویڈا(Nevada) اسٹیٹ سےامریکی سائبر کمانڈ کنٹرول کر رہی تھی۔

’’در حقیقت سلیمانی کا قتل موساد نے کیا ہے‘ ٹرمپ نے تو صرف ٹریگر دبایا ہے۔‘‘موساد تو ایران کے پانچ ایٹمی سائنسدان بھی قتل کر چکا ہے۔

ایران کے پاس بھی کیو نائن ریپر جیسی صلاحیت کے حامل ڈرون ہوسکتے ہیں کیونکہ چند سال قبل ایران نے اپنی فضائی خلاف ورزی کرنے والا ایک ایسا ہی ڈرون مار گرایا تھا اور اس کی ریورس انجنئیرنگ کر کے ‘طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل‘ راکٹ اور ڈرونزکاایک ابتدائی نمونہ تیار کر لیا تھا اور اب ان ہتھیاروں کو مختلف مقامات پر متعین کر دیا گیا ہے جنہیں سائبر کمانڈ کی تین یونٹیں مختلف مقامات سےکنٹرول کر رہی ہیں۔

اب ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران کو مدافعت(Deterrence) کے میدان میں نئی جہت ملی ہے جو متوقع جنگ میں بہت مفید ثابت ہوگی۔

سائبر اور اے ون ٹیکنالوجی کی شمولیت سے اس صلاحیت نے ایران کو محدود جنگ لڑنے کے قابل بنایا ہے جیسا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک سخت رد عمل امریکہ کا منتظر ہے‘‘ جبکہ امریکہ کےسابق وائس پریذیڈنٹ نے ٹرمپ کی اس حرکت کو ناعاقبت اندیشانہ آپریشن قرار دیا ہے جو’’ بارود کے گودام میں چنگاری پھینکنے کے  مترادف ہے۔‘‘ کیونکہ زمانہ  امن میں ایک سینئر سرکاری افسر کو کھلے عام قتل کرنا کھلی دہشت گردی ہے۔

سلیمانی کے خون کا بدلہ لینے کے لئے ایران کے پاس ایک بہتر متبادل راستہ یہ ہے کہ روایتی جنگ کی بجائے سائبر- ڈرون اور اے ون کی صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کر کےعراق، شام یمن اور لبنان میں زمینی فوج سے منسلک کر دے۔ افغانستان میں بھی ایران کو خاصا اثرورسوخ اور عزت کا مقام حاصل ہے۔

ان مقامات سے بحرین میں موجود پانچویں بحری بیڑے سمیت امریکی شخصیات اور فوجیوں کے خلاف کامیاب کاروائیاں کی جا سکیں گی۔ ایران نے قطر میں واقع امریکی سینٹکام کے بیس سمیت پہلے ہی پینتیس ایسے مقامات کا تعین کر رکھا ہے۔ ایران کے لئے یہ ایک مکمل جنگ ہو گی جو زمینی فوج روایتی جنگ کے طویل تجربے کی مدد سے سائبر ٹیکنالوجی کی بنیاد پر لڑی جائے گی۔ یہ حکمت عملی ایران کو محدود پیمانے پر جنگ کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔

قم میں مسجد جمکران پر سرخ پرچم لہرانے کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی رہبر علی خامنہ ای نے امریکہ کو اس کی فاش غلطی کی سزا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے جو پورے مشرق وسطی کے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ہمسایہ ممالک پر مہلک اثرات مرتب ہو ں گے۔ جنگ کا ہدف صرف امریکی فوج اور مفادات ہی نہیں ہوں گے بلکہ اصل ہدف اسرائیل ہو گا جو خطے میں تمام برائیوں کی جڑ ہے۔

ایران گزشتہ چار دہائیوں سےامریکہ اور اسرائیل کے ہاتھوں مسائل سے دوچار ہے اور اب ایران کے لئے اس بوجھ سے نجات حاصل کرنے کا مناسب وقت ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکہ اور اسرائیل کو جو برتری حاصل ہے اس کا توڑ راکٹوں اور ایران، عراق، شام، یمن، لبنان اور غزہ کے ہزاروں خودکش بمباروں کے ذریعے مؤثر طور پر کیا جا سکتا ہے۔ جیسے جیسے جنگ طویل ہو گی، ہمسایہ ممالک سے جہادیوں کی آمد شروع ہو جائے گی جو جنگ میں نئی روح پھونک دیں گی، اس طرح یہ ایک شدید خونی جنگ ہو گی جو خطے کے تیل پیدا کرنے والے ممالک اور تیل پر انحصار کرنے والے ممالک سب کے لئے یکساں ضرر رساں نتائج کی حامل ہو گی۔ خصوصا چین کو شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، جسے آبنائے ہرمز کے ذریعے تیل کی سپلائی ہوتی ہے۔

  ایران اسے بند نہیں کرے گا بلکہ خود امریکی خود اسے بند کر دیں گے کیونکہ شمال مغربی یورپ سے ان کی سپلائی لائن محفوظ رہے گی۔

روس اور چین اس جنگ میں شامل نہیں ہوں گے اور فریقین کو صبر و برداشت کی تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کو افغانستان کے بعد ایک اور شرمناک شکست سے دوچار ہوتا دیکھنا چاہیں گے۔ ترکی، ملائیشا اور انڈونیشیا ایران کی مدد کریں گے جبکہ پاکستان اسی کی دہائی کی طرح ایران عراق جنگ کے دوران اپنائی جانے والی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے فریقین کوامن و احتیاط کی راہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتا رہے گا۔ لیکن پاکستان کو شدید گروہی شورش کا سامنا کرنا پڑے گا۔ درحقیقت اس صورت حال سے خلیج کا پورا خطہ جغرافیائی و سیاسی اعتبار سے شدید عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔

عالمی جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ دنیا والے گزشتہ چار دہائیوں سے مسلم ممالک پر ڈھائے جانے والے مظالم اور تباہی و بربادی کے مناظر دیکھتے رہے ہیں اور اب مشرق وسطی میں ہونے والی جنگ کے دوران بھی ایسا ہی کرتے رہیں گے۔ اقوام متحدہ جیسی عالمی تنظیمیں اور ان کے ذیلی مالی ادارے اپنے آپ کو غیر جانبدار ہی رکھیں گے جبکہ فلسطین اور کشمیر کے مجاہدین آزادی کو اپنے مقاصد میں کامیابی ہو سکتی ہے کیونکہ اسرائیل کو اس جنگ کی ہولناکی کا شدت سے سامنا ہو گا اور بھارت کے اندر  علیحدگی پسند تنظیمیں اور شدید سیاسی ابتری جو خود مودی کی ہندوتوا پالیسی کے سبب پیدا ہوئی ہے، وہ بھارت کے لئے عتاب ثابت ہوگی۔

بھارت جو امریکہ کا اسٹریٹیجک ڈیفنس پارٹنر ہے، ایران کے خلاف جنگ کے دوران امریکہ کی مدد کرنے کا پابند ہے۔ اب بھارت اپنے آپ کو اس جنگ سے بچانے کے لئے کیا راستہ اختیار کرتا ہے، یہ انتہائی دلچسپ بات ہو گی۔ ان کا فیصلہ پاکستان کی سلامتی  کے لئے بڑا چیلنج ہو گا۔

ایرانیوں کو اپنے ایٹمی اثاثوں اور سہولیات کو درپیش خطرات کا شدید احساس ہے جنہیں پہاڑوں میں خندقیں کھود کر محفوظ کر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ کو یہ صلاحیت حاصل ہے کہ F-35جنگی جہاز کے ذریعے نئے ہتھیار استعمال کر کے ان اثاثوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے جیسا کہ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے۔ یہ نیا ہتھیار GBU 43/N-MOAB جیسے بھاری ہوائی دھماکے سے زیادہ تباہی پھیلانے کا اہل  ہے۔ ایران کے پاس F-35 کے خلاف  دفاعی صلاحیت محدود ہے جو ان کے لئے خاصے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔

کسی نے کیا اچھا تبصرہ کیا ہے:

’’مشرق وسطی اپنے آپ کو شدید ترین غیریقینی‘ جغرافیائی و سیاسی افراتفری اور ریاستوں کے مابین باہمی اعتماد کے فقدان کے بحران میں گھرا ہوا پائے گا۔ امریکہ  طویل عرصے سے ایران کو عربوں اور اسرائیل کے ہم پلہ بنانے کا خواہاں رہا ہے۔ تمام سابقہ امریکی صدور کی خواہش بھی رہی ہے اور ایران کو عربوں کے لئے خطرہ کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں جو اب تبدیل ہو رہی ہے۔‘‘

مصنف پاکستان کے سابق آرمی چیف ہیں۔