آمریت پر سمجھوتہ: فیسبک ایشیا میں کاروبار کی خاطر عوام کی آوازیں دبانے کو تیار

آمریت پر سمجھوتہ: فیسبک ایشیا میں کاروبار کی خاطر عوام کی آوازیں دبانے کو تیار
برطانوی جریدے ’دی فنانشل ٹائم‘ نے معروف سماجی سیب سائٹ فیس بک کے بارے میں اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ فیس بک انتظامیہ نے ایشیا میں اپنا کاروبار تیز کرنے کی کے لئے حکومتوں کے ساتھ مل کر آزادی اظہار دبانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس مد میں فیس بک نے بہت سے ممالک کی آمرانہ پالیسیوں پر بولنے والے صارفین کے اکاؤنٹس بھی بند کر دیے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق فیس بک ایشین منڈیوں میں پاؤں جمانے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ کیوں مغرب میں انکی نمو نسبتاً کم ہوگئی ہے۔ پانچ سال قبل مارک زکربرگ نے چائنہ کے وزیراعظم سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ کھانا کھایا تا کہ وہ اپنی سوشل میڈیا سلطنت کو وسعت دے سکیں۔ تاہم بیجنگ حکام کی جانب سے ان کے ملک کے کچھ صارفین کو بلاک کرنے سے انکار پر کمپنی کو وہاں مکمل بند کر دیا گیا۔ اس بات کا اقرار کمپنی کے چیف ایگزیکٹو نے خود کیا۔

اب فیس بک دیگر ایشیا پیسیفک ممالک میں اپنا دائرہ کار وسیع کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ لاکھوں غیر استعمال شدہ صارفین کی تعداد میں اضافہ کر سکے۔ اس لئے فیس بک کی جانب سے بہت سے براڈ بینڈ انفراسٹرکچر کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی جارہی ہے اور ان ممالک میں ایپ ادائیگی کے کام کو مزید بڑھایا جاسکے۔

خطے میں صارفین کی تعداد 50 فیصد اضافہ سے بڑھ کر 1.2 بلین تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ اور کینیڈا میں صرف 7 , 7 فیصد بڑھ کر 255 ملین ہو چکی ہے۔

تاہم فیس بک کو مشروط صورت حال میں کام کرنا ہوگا اور ان اخلاقی اصولوں سے پیچھے ہٹنا ہوگا جس کا عزم مارک زکربرگ نے کیا تھا۔ پہلے ہی فیس بک تھائی لینڈ اور ویت نام جیسے ممالک کی جابرانہ پالیسیوں کے آگے جھک گیا ہے جب اسے وہاں کی حکومتوں کے خلاف ہونے والی تنقید کو سنسر کرنا پڑا۔

ایشیا پیسیفک سیکیورٹی پروگرام کے ریسرچر کوبے گولڈ برگ نے کہا ہے کہ فیس بک بہت ہی نازک جمہوریتوں میں آگ کی طرح پھیل رہا ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق بھارت، انڈونیشیا اور فلپائن میں فیس صارفین کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملا جب کہ امریکہ اور کینیڈا میں فیس بک صارفین کے بڑھنے کی شرح صرف 3.67 فیصد رہی۔

اس تعداد کو مزید بڑھانے کیلئے فیس بک نے خطے میں انٹر نیٹ تک رسائی کو فروغ دینے کیلئے اقدامات شروع کر دیے ہیں اور صارفین کو آزادی اظہار جیسی خدمات بند کر دی ہیں۔ حال ہی میں فیس بک نے انڈونیشیا میں فائبر آپٹک کی فراہمی میں مدد کی اور جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک میں کیبلز کی فراہمی کیلئے سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ جہاں فیس بک اب وٹس ایپ پر نئی ترسیلات کی مد میں پیسے بھی کمائے گی۔

ایک ماہر ستیش مینا نے کہا ہے کہ ’ پہلے مقصد سماجی رابطے اور معلومات کی شئیرنگ تھی اور اب اس کا مقصد پیسے کا لین دین بن چکا ہے‘۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اب حکومتیں فیس بک کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہیں اور آزانہ تقریر پر منافع کو ترجیح دی جارہی ہے۔ فیس بک نے تھائی لینڈ اور ویت نام کی حکومتوں کے کہنے پر حکومت پر تنقید کرنے والے بہت سے صارفین کے اکاؤنٹس بند کر دیے تھے۔

گزشتہ ماہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فیس بک اور یو ٹیوب پر الزام لگایا تھا کہ وہ فیس بک کو بطور کاروباری جبر کے چلا رہے ہیں جہاں سنسر شپ کر کے ریاست، فوجی حکومتوں اور ریاستی سرپرستی میں ٹرولز کو میدان فراہم کیا جارہا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ کچھ ماہ قبل فیس بک کے سربراہ مارک زکربرگ نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ اس کے بعد بھارت میں انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے کارکنان کی اکاونٹس کو بند کیا گیا ساتھ ہی ساتھ فیس بک کے خلاف بے شمار شکایت بھی موصول ہوئیں۔