قومی احتساب بیورو (نیب) کے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر نے 4 اکتوبر 2021ء اپنے عہدے سے استعفا دیا تھا، جو 6 اکتوبر کو منظور کیا گیا۔ بعد ازاں ڈپٹی چیئرمین نیب کے لئے ظاہر شاہ کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
حسین اصغر کا دو ٹوک موقف تھا کہ ان کیسز میں گرفتاری اور سزائیں نہیں بنتیں۔ حسین اصغر کو اس بنا پر 8 ماہ سے سائیڈ لائن کر دیا گیا۔
حسین اصغر نے جن مخصوص کیسز میں ٹھوس شواہد نہ ہونے کا اعتراض کیا تھا، ان میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے خلاف ایل این جی کیس اور احسن اقبال کے خلاف نارروال سپورٹس کمپلیکس سمیت کئی اہم کیسز شامل ہیں۔
ان کیسز سے متعلق حسین اصغر اور جسٹس جاوید اقبال کے درمیان بحث بھی ہو چکی ہے۔ حسین اصغر سمجھتے تھے کہ ان کیسز میں کرپشن سے زیادہ طریقہ کار کی خامیاں ہیں۔
نیب سے متعلق ماضی میں سپریم کورٹ کے فیصلوں میں لکھے گئے ریمارکس کو دیکھا جائے تو اس خبر میں کوئی اچنبھے کی بات دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت کے سیاسی مخالفین تو شروع دن سے نیب پر الزامات لگاتے ہی آئے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے ججز بھی اپنے فیصلوں میں اس ادارے کو سیاسی انجینئرنگ کا ایک ہتھیار قرار دے چکے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کے کیس میں اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے نیب پر انتہائی سخت تنقید کی گئی تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیراعظم عمران خان کے اپنے بیانات ماضی میں اس چیز کی عکاسی کرتے رہے ہیں کہ نیب پر وہ اثر انداز ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر انہوں نے اپنے دورۂ امریکہ کے دوران ایک موقع پر کہا کہ شاہد خاقان عباسی کہتا تھا کہ مجھے جیل میں ڈال کر دکھاؤ، ڈال دیا۔ اب اسی کیس سے متعلق خبریں ہیں کہ نیب کے اپنے سینئر عہدیدار اس کیس کو جائز نہیں سمجھتے تھے لیکن نیب چیئرمین نے اس کے باوجود کیسز بنوائے۔
اب ذرا یاد کیجیے کہ ایف آئی اے کے سابق سربراہ بشیر میمن نے مطیع اللہ جان کو اپنے انٹرویو میں کیا کہا تھا۔ بشیر میمن کا دعویٰ تھا کہ انہیں خود بلا کر حکومتی عہدیداروں نے عمران خان سے ملاقات کروائی اور پھر انہیں لے جا کر مختلف اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف مقدمات بنانے کو کہا۔ یہاں تک کہ انہیں سپریم کورٹ کے مستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھی مقدمات بنانے کو کہا گیا تھا۔
ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے یہ مقدمات بنانے سے انکار کیا اور پھر وہ چند روز کی چھٹی پر جا رہے تھے لیکن جب واپس آئے تو انہیں پتا چلا کہ ان کی چھٹی میں مزید توسیع کر دی گئی ہے اور وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے وقت تک تقریباً چھٹی پر ہی رہے۔
بشیر میمن کے مطابق یہ تمام کیسز جو انہیں بنانے کو کہا گیا تھا وہ بعد ازاں نیب نے بنائے جبکہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانے کے لئے ایف بی آر کے جس سینئر عہدیدار نے مختلف وزرا کی موجودگی میں یہ بات کی، بعد میں اسی نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف معلومات اکٹھی کرکے شہزاد اکبر کو دیں اور وہ خود بھی اب ایف بی آر کے چیئرمین بن چکے ہیں۔
ابھی حال ہی میں سب سے بڑا انکشاف تو عمران خان کے ماضی کے قریبی ساتھی اور ان کے بڑے حامی محسن بیگ نے کیا جن کا دعویٰ تھا کہ عمران خان چیئرمین نیب کو پسند نہیں کرتے تھے مگر پھر ان کی ایک ویڈیو جب ٹی وی پر چلی تو عمران خان کے ہاتھ میں ان کی ایک کمزوری آ گئی جس کے بعد عمران خان نے اپنی حکومت انہی کے بل پر کی۔
محسن بیگ کا کہنا تھا کہ “نیب سربراہ کو عمران خان صاحب پسند نہیں کرتے تھے لیکن اس بدکردار آدمی کی جو ویڈیو آئی، اس کے بعد وہ ان کے قابو میں آ گیا”۔ انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے جو ISI سربراہ تھے ان کے اوپر بھی بہت سے الزامات لگے۔ کیونکہ وہ بھی سب لوگوں کو کہتے تھے کہ اس کو میں نے بنایا، عمران خان کے بارے میں بھی یہی کہتے تھے۔ “تبھی اپوزیشن نے ان کو سلیکٹڈ کہا تھا۔ کیونکہ سب کاموں کا کریڈٹ تو وہ لے رہے تھے۔ تو جب کریڈٹ آپ کو جائے گا تو نقصان بھی آپ کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ ایک صاحب تو چلے گئے۔ چیئرمین نیب رہ گیا۔ تو کافی حد تک بھائی صاحب نیچے آ گئے ہیں۔ اور اگر اب اپوزیشن کوئی بھی move کرتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار رہتی ہے تو۔۔۔”
اب ایسے میں نیب سربراہ کو ایک آرڈیننس کے ذریعے توسیع دیے جانا مزید سوالات کھڑے کرتا ہے کہ یہ ادارہ کس طرح چلایا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ نیب چیئرمین کو جمعرات 6 جنوری کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بلایا گیا تو یہ نہ پہنچے اور ان کی جگہ ایک خط پیش ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ ڈی جی نیب اداروں کے سامنے پیش نہ ہوں بلکہ ان کی جگہ نمائندگی کرنے کے لئے وزیراعظم نے اکاؤنٹنگ کا ایک ڈی جی مقرر کر دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ چیئرمین نیب پارلیمان کے سامنے جوابدہ نہیں ہونا چاہتے، چیئرمین نیب چاہتے ہیں سب ان کے سامنے جوابدہ ہوں، وہ خود کسی کے سامنے پیش نہ ہوں، وفاقی کابینہ کے پاس اختیار نہیں کہ وہ چیئرمین نیب کو پی اے سی میں آنے سے منع کرے۔