شہری کو لوگوں سے ووٹ مانگنے سے نہیں روکا جا سکتا
حقیقی جمہوریت جمہور کی طاقت سے برپا ہوتی ہے اور شہری حقوق اس نظام کا بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ میں نے ابھرتے ہوئے نوجوان سیاسی لیڈر کے منہ سے حقیقی جمہوریت کے الفاظ لاتعداد مرتبہ سنے ہیں لیکن کبھی انہیں شہری حقوق پر بولتے نہیں سنا۔ نہ جانے شہری حقوق ان کی ترجیح نہیں یا وہ ان کے بارے میں لاعلم ہیں۔ میرا قیاس ہے معاملہ مؤخر الذکر والا ہے۔ حق نمائندگی بنیادی شہری حقوق میں سے ہے جس کا تقاضہ ہے کہ کسی بھی شہری کو لوگوں سے ووٹ مانگنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ سو حقیقی جمہوریت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کا حق نمائندگی صرف اس لئے معطل کر دیا جائے کہ اس کی ماں یا باپ سیاست یا حکومت میں رہا ہے؟ ایسا ممکن نہیں اور جمہوری ریاستوں میں سیاسی خانوادوں کی کئی امثال موجود ہیں۔
ایک ہی خاندان سے صدر، صدارتی امیدوار، اٹارنی جنرل، اور 47 سال تک مستقل سینیٹر، اور وہ بھی 'حقیقی' جمہوریت میں
امریکی جمہوریت کا سب سے مشہور سیاسی خانوادہ کینیڈی خاندان ہے۔ پیٹرک کینیڈی انیسویں صدی کے اواخر میں امریکی ریاست میساچوسسٹ کے ایوان زیریں اور ایوان بالا کا رکن رہا۔ اس کا بیٹا جوزف کینیڈی کئی اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہوا جن میں برطانیہ میں امریکی سفر ہونا بھی شامل تھا۔ جوزف کینیڈی کا بیٹا جان ایف کینیڈی، کینیڈی خاندان کا سب سے بڑا نام، امریکہ کا پینتیسواں صدر منتخب ہوا۔ اب یہاں حقیقی جمہوریت کی اقربا پروری بھی ملاحظہ ہو کہ صدر بننے کے بعد جان ایف کینیڈی نے اپنے بھائی رابرٹ کینیڈی کو اپنا اٹارنی جنرل تعینات کیا۔ امریکہ میں اٹارنی جنرل وزیر قانون ہوتا ہے اور صدر اپنی کابینہ میں کسی بھی امریکی کو شامل کر سکتا ہے، اس کے لئے منتخب ہونے کی شرط نہیں۔ یہی رابرٹ کینیڈی نیویارک کے ایوان بالا کا ممبر بھی منتخب ہوا اور جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد امریکہ کی صدارت کا بھی امیدوار تھا لیکن صدارتی کمپین کے دوران قتل ہو گیا۔ جان اور رابرٹ کا تیسرا بھائی، ایڈورڈ کینیڈی، سینتالیس سال امریکی سینٹ کا ممبر رہا۔ رابرٹ کینیڈی کی بیٹی کیتھلین کینیڈی ریاست میری لینڈ کی نائب گورنر اور بیٹا جوزف کینیڈی ریاست میساچوسسٹ کے ایوان زیریں میں منتخب ہوئے۔ ایڈورڈ کینیڈی کے دو بیٹے بھی دو مختلف ریاستوں کے ایوانوں میں منتخب ہوئے۔
بش خاندان بھی تین نسلوں سے سیاست میں، ٹروڈو بھی 'موروثی' سیاست سے مستفید
کینیڈی خاندان کے بعد بش خاندان کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ پریسکوٹ بش امریکہ کا سینیٹر تھا۔ اس کا بیٹا جارج ایچ ڈبلیو بش امریکہ کا اکتالیسواں صدر منتخب ہوا۔ جارج ایچ ڈبلیو بش کا ایک بیٹا، جارج ڈبلیو بش امریکہ کا صدر منتخب ہوا اور دوسرا بیٹا، جیب بش، ریاست فلوریڈا کا گورنر۔ بات صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں۔ کینیڈا کے موجودہ وزیراعظم کے والد بھی آٹھ سال اسی عہدے پر رہ چکے ہیں۔
الله اوبامہ کو اولاد نرینہ سے نوازے، سوچا تو جا سکتا ہے
ابھرتے ہوئے نوجوان سیاسی لیڈر نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا یہ سوچا جا سکتا ہے کہ صدر اوبامہ اپنے بیٹے کو سیاست میں لے آئے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ اللہ نے صدر اوبامہ کو اولاد نرینہ جیسی نعمت سے، اس تحریر کے قلم بند ہونے تک، محروم رکھاہوا ہے، اوپر دی گئی مثالوں کے مطابق یہ بالکل سوچا جا سکتا ہے کیونکہ امریکی صدر کی اولاد کے سیاست اور اقتدار میں آنے پر کوئی پابندی نہیں۔
ہاں مگر ابھرتے ہوئے لیڈر کچھ ایسا غلط بھی نہیں کہہ رہے
شائد ابھرتے ہوئے نوجوان سیاسی لیڈر کا نشانہ سیاسی جماعتوں کی ملکیت کا موروثی ہونا ہو اور امریکہ وغیرہ کی مثال ان کے فکری ابہام کی وجہ سے ہو جس کا وہ مسلسل شکار رہتے ہیں۔ یہ ایک درست امر ہے کہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پر دو خاندانوں کی جاگیر داری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے سیاسی جمود کی وجہ یہ ہے کہ یہ دو خاندان دو پارٹیوں پر حاوی ہیں؟
اگر موروثیت جمہوریت کی تباہی کا باعث ہے تو بھارت میں جمہوریت توانا کیونکر؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے ہمیں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ابھرتے ہوئے نوجوان سیاسی لیڈر کے شکوے کے مطابق بھٹو کی تیسری نسل سیاست میں ہے لیکن ملک بھارت میں کانگریس پر نہرو کی چوتھی نسل حاوی ہے۔ اگر پارٹیوں کی موروثی ملکیت ہی سیاسی جمود کی وجہ ہوتی تو وہ جمود ہمیں بھارت میں بھی نظر آتا لیکن بھارتی جمہوریت پاکستانی جمہوریت سے کہیں زیادہ توانا اور متحرک ہے۔ تو کہیں سیاسی جمود کی بنیادی وجہ خاندانوں کی پارٹیوں پر اجارہ داری کی بجائے جمہوریت کا عدم تسلسل تو نہیں؟
خاندانوں کی جماعتوں پر اجارہ داری غلط، مگر آپ کی اپنی جماعت میں متبادل قیادت کا نظام موجود ہے؟
ابھرتے ہوئے نوجوان سیاسی لیڈر کی بات کو بالکل ہی رد بہرحال نہیں کیا جا سکتا۔ خاندانوں کی اجارہ داری سیاسی جماعتوں پر بہرحال کوئی قابل فخر بات نہیں لیکن یہ اس لئے ہوتا ہے کہ پارٹیوں کی قیادت اپنا متبادل تیار نہیں کرتیں۔ سو ایک قیادت کے جانے سے جو خلا پیدا ہوتا ہے وہ پھر گھر ہی سے پورا کر دیا جاتا ہے۔ مگر اس جرم کا ارتکاب تو خود ابھرتے ہوئے نوجوان سیاسی لیڈر بھی فرما رہے ہیں۔ خدا ہماری تفنن طبع کے لئے ان کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر سلامت رکھے لیکن تصور کیجیے کہ اگر کل وہ خدانخواستہ اس عالم فانی سے کنارہ کش ہو جائیں تو ان کی جماعت کا کیا حشر ہوگا؟ کیا وہ ایک دن بھی سلامت رہ پائے گی؟ کیا اس میں متبادل قیادت موجود ہے یا پھر پہلی فلائٹ سے دو نوجوانوں کو برطانیہ سے منگوا کر پارٹی لیڈرشپ انہیں دینی پڑ جائے گی؟
حقیقی جمہوریت میں موروثیت ہو سکتی ہے لیکن کسی نظام کے تابع
اس امر پر اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ حقیقی جمہوریت میں موروثیت ہو سکتی ہے لیکن کسی نظام کے تابع۔ امریکی صدر کا بیٹا امریکہ کی صدارت کا امیدوار ہو سکتا ہے لیکن اسے پہلے اپنی پارٹی سے جمہوری طور پر نامزد ہونا ہوتا ہے۔ اسے کوئی ایک شخص امیدوار قرار نہیں دے سکتا۔ ایک شخص تو کیا، پوری پارٹی قیادت بھی مل کر اس کے سر پر امیدواری کا تاج نہیں رکھ سکتی۔ اسے نامزدگی کے لئے پارٹی کے ووٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ سو پاکستان میں مسئلہ اس نظام کی عدم موجودگی ہے۔
نظام جلسہ گاہ نہیں پارلیمان میں تبدیل ہوتا ہے
ابھرتے ہوئے نوجوان سیاسی لیڈر جن حقیقی جمہوریتوں کی مثالیں دیتے ہیں اس میں نظام جلسہ گاہ نہیں پارلیمان میں تبدیل ہوتا ہے۔ ان ملکوں میں اپوزیشن جماعتیں پارلیمانی جوڑ توڑ کے ساتھ اپنے بل قانون میں تبدیل کروا لیتی ہیں۔ اب ان صاحب کی پارٹی پچھلے پانچ برس پاکستانی پارلیمان کی تیسری بڑی پارٹی رہی۔ ان حقیقی جمہوریتوں کی طرح پارلیمان میں جا کر اس نظام کی تبدیلی کی کوششس کرنے سے کیا چیز مانع تھی؟ چلیے کوشش کامیاب نہ بھی ہوتی تو آج یہ دعویٰ تو کر سکتے کہ حکومت نے تو حقیقی جمہوریت نہیں دکھائی لیکن ہم بطور اپوزیشن حقیقی جمہوریت کے علمبردار تھے۔ لیکن آپ نے تو پارلیمان نہ جا کر اپنے اس ووٹر ہی کی عزت نہ رکھی جس نے ووٹ ہی آپ کو پارلیمان میں جانے کا دیا تھا۔ یہ حرکت دوسری پارٹیوں کے لیڈروں نے بھی کی لیکن انہیں تو علم ہی نہیں کہ حقیقی جمہوریت کیا ہوتی ہے۔
مرضی کی جزئیات نکال کر باقی کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں تو آپ کے پاس ایک نئی چیز ہوگی
اور آخر میں ابھرتے ہوئے نوجوان سیاسی لیڈر کی خدمت میں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ ایک دفعہ غور کر لیجئے کہ کیا مغربی حقیقی جمہوریتوں کی مثال دینا کوئی مناسب عمل ہے؟ ایک نظام اپنی جزئیات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اگر آپ ان جزئیات میں سے اپنی مرضی کی جزئیات نکال کر باقی کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں گے تو جو مجموعہ آپ کے پاس ہو گا وہ ایک نئی چیز ہوگی اور اس کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اگر آپ ہوائی جہاز کے پہیے اتار پھنیکیں کہ اس مردود کا کام اڑنا ہے تو اس میں پہیے کیوں لگے ہوئے ہیں تو پھر وہ اڑان بھی نہیں بھر سکے گا۔
حضور، ٹریسا مے سیاسی تقریر میں اتنے زیادہ مذہبی حوالے دینے کا بھی نہیں سوچ سکتی
ابھرتے ہوئے نوجوان سیاسی لیڈر کی بات بالکل درست ہے کہ ٹریسا مے سوچ بھی نہیں سکتی کہ وہ اپنے بچوں کو طاقت میں لے آئے لیکن وہ ابھرتے ہوئے نوجوان سیاسی لیڈر کی طرح سیاسی تقریر میں اتنے زیادہ مذہبی حوالے دینے کا بھی نہیں سوچ سکتی۔ اگر ایسا کرے گی تو اسے اپنے عوام کے تمسخر کا سامنا کرنے پڑے گا۔ امریکی سیاست میں مذہب یورپ سے کہیں زیادہ حاوی ہے لیکن امریکہ میں بھی کوئی امیدوار تصور نہیں کر سکتا کہ وہ ابھرتے ہوئے نوجوان سیاسی لیڈر کی طرح اپنے مخالف کو ووٹ دینے کو شرک جیسی چیز سے تعبیر کرے۔ ابھرتے ہوئے نوجوان سیاسی لیڈر کے لئے خاکسار کا مخلص مشورہ ہے کہ وہ ان ممالک کی مثال نہ دیا کریں اور بس علامہ اقبال تک رہا کریں تاکہ چیزیں مبہم ہی رہیں۔ حقیقی جمہوریت مبہم نہیں اور اس پھول کے ساتھ ایسے کانٹے بھی لگے ہوئے ہیں جن کی چبھن برداشت کرنا آپ کے بس کی بات نہیں۔